لشکری زبان " نظریہ یا قیاس آرائی" ( قسط نمبر 1 )

 

لشکری زبان " نظریہ یا قیاس آرائی"

✍🏻وسیم اکرم حقانؔی

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے اکثر و بیشتر مسائل خود ساختہ اور غیر فطری مسائل ہیں جن کے حل کیلئے بھی ہم ہی لایعنی اور بے سرو پا سعی و کوشش کرتے ہیں. جذبات اور عقیدت دو ایسے مقدس بندھن ہیں جن کے اسیر ہوکر ہم نظر و فکر کا اعتدال کھو بیٹھتے ہیں اور اپنی تمام تر ترجیحات کو غیر فطری اور غیر متوازن خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرکے اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں. لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم چند لمحات کیلئے خود کو آزاد کرکے اور اپنے گلے سے جذبات کا طوق اور پیروں سے عقیدت کی بیڑیاں اتار کر تھوڑا سا سر بلند کرکے اور دو قدم پیش رفت کر لیں تو ہم کو حقیقت انتہائی قریب سے دیکھائی دیتی ہے کہ وہ کس طرح سج دھج کر ہماری کم ہمتی اور سستی پر ہنستی مسکراتی ہے. اکثر تو جب ہماری نگاہیں حقیقت پر پڑتی ہیں تو یا ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا پھر منہ ہی موڑ کر اپنے ضمیر پر شدید ملامتی تازیانے برداشت کرتے ہیں. اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم حقیقت پسند نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صدیوں کی غیر ضروری جدوجھد یوں رائیگاں جاتی نہیں دیکھ سکتے ، کیونکہ کون چاہتا ہے کہ وہ چند روز بھی خود کو اس شدید گھٹن اور حبس میں رکھے جس پر مثبت نتائج کے بجائے منفی نتائج مرتب ہو؟

ہمیں بچپن سے یہ پڑھایا اور سمجھایا گیا ہے بلکہ زبردستی ہمارے اذہان میں یہ ٹھونسا گیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اردو کے فروغ میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے اور جس دن اردو زبان کو حقیقی معنوں میں رائج کیا گیا اس دن مشکلات رہیں گے نہ یہ مسائل ! لیکن بہت غلط اور نادرست تصورات پروپیگنڈوں اور جعل سازی سے ہم کو سکھائے گئے ہیں جن پر اب ہماری عقل فیصلہ کن نتیجے پر پہنچی ہے کہ قومی زبان کا فروغ مسائل کا حل نہیں، اور کیوں نہیں ؟ اس کو سمجھنے سے پہلے اردو زبان کو سمجھنا ہوگا تب جا کر ہمیں قومی زبان کے فروغ اور اس سے جڑے مسائل پر علمی و تحقیقی بحث کا موقع ہاتھ آئے گا. راقم ذاتی طور پر پہلے دن سے ہی اس خیال اور نظریے پر خود کو راضی نہ کرسکا کہ اردو لشکری زبان ہے. لیکن اکثر اہلِ علم اور ماہرین سے یہی سننے کو ملتا کہ اردو لشکری زبان ہے! گو کہ ایک اجماعی مسئلے کی طرح اس کے خلاف سوچنا بھی مشکل تھا اور راقم اس نظریے پر مصنوعی اور بناوٹی رضامندی ظاہر کرنے لگا کہ واقعی اردو لشکری زبان ہے. لیکن جستجو اور تلاش سے معلوم ہوا کہ اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں  آج تک جو مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ معروف و مقبول لیکن سب سے قابل توجہ اور محلِ نظر نظریہ یہی ہے کہ اردو لشکری زبان ہے. اگرچہ ماہرینِ لسانیات اور ماضی کے ثقہ اور مستند لکھاریوں نے یہ بات کوئی ایک صدی پہلے ثابت کر دی تھی کہ اردو لشکری زبان نہیں  ہے. لیکن آج بھی یہ نظریہ موجود ہے کہ اردو لشکری زبان ہے. میں نے اکثر اُردو زبان کے شائقین اور طلباء ساتھیوں سے اس کے متعلق استفسار کیا تو ان کا جواب یہی تھا اور اس کے متعلق میری رائے سننے کو بھی تیار نہیں تھے. اور اس میں وہ سب حق بجانب تھے کیونکہ میں خود اس تقلیدی سوچ کا اسیر رہ چکا ہوں اور بہت عرصے تک باوجود تحقیق کے بھی خود کو اس پر مطمئن نہ کرسکا کہ اُردو زبان کے متعلق یہ نظریہ محض قیاس آرائی ہے. اس کی کوئی عقلی و منطقی حیثیت نہیں ہے.

اردو کو لشکری زبان سمجھنے والے اور اس نظریے کے علمبرداروں کا موقف یہ ہے کہ اردو ایک کھچڑی اور مغشوش زبان ہے اور یہ مغلیہ عہد میں بیرونِ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمانوں کی زبانوں (مثلاً عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ ) کے الفاظ اور مقامی بولیوں کے سنسکرت الاصل یا ہندی الاصل الفاظ سے مل کر بنی ہے. اس نظریے کو درست ماننے والوں  کی مضبوط تر دلیل یہ ہے کہ ’’اردو‘ ‘ترکی زبان کا لفظ ہے اور بلاشبہ اردو ترکی زبان کا ہی لفظ ہے اور "اردو" ترکی زبان میں لشکر کو کہتے ہیں. چونکہ مغلوں کے لشکر میں مختلف زبانیں بولنے والے سپاہی شامل تھے اور وہ آپس میں  گفتگو کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کرتے تھے جس میں ان تمام زبانوں کے الفاظ شامل تھے، اسی لیے اس زبان کا نام ’اردو‘ پڑ گیا. اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو اس بات میں کافی وزن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ مختلف زبانیں بولنے والے جب ایک جگہ جمع ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنے سے قاصر ہو تو لازمی بات ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، تو وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے کوئی درمیانی راہ نکالیں گے اور ان الفاظ کو استعمال کریں گے جس کو مخاطب سمجھ سکے. اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ سب سے پہلے ۱۷۵۰ء تا ۱۸۳۷ء کے درمیانی عہد میں  ملتا ہے. میر امن دہلوی کی کتاب ’ باغ و بہار‘ کے دیباچے میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے. حافظ محمود شیرانی صاحب نے اس پر مزید تحقیق کے بعد واضح کیا ہے کہ لفظ اردو کب، کہاں اور کن معنوں میں مستعمل ہوا ہے. شیرانی صاحب کی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر امن کے بعد جن لوگوں  نے لفظ اردو اور اردو زبان کے بارے میں  اظہار خیال کیا، ان میں  سے کئی نے اردو کے لشکری زبان ہونے کی قیاس آرائی کو الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ دہرا دیا ہے. لیکن کوئی ایسا محقق یا ماہرِ لسانیات ایسا نہیں گزرا جس نے اس قابلِ نظر نظریے یا قیاس آرائی پر کوئی تحقیقی یا تنقیدی کام کیا ہو. بلکہ ان تمام حضرات نے میر امن دہلوی کے انداز اور زاویہ نظر سے اس مسئلے کو پرکھا ہے. اس عہدِ قدیم میں سب قابلِ احترام ماہرین اور ادیب گزرے ہیں جن کی بات آج بھی بطورِ سند اور دلیل کے پیش کی جاتی ہے لیکن جب ان سے یہ نظریہ تواتر اور تسلسل کے ساتھ نقل کیا گیا اور تعلیمی سسٹم میں بھی اس کو قبول کرکے طلباء کو پڑھایا جانے لگا تو لازمی بات ہے کہ اس خیال کو مقبولیت ہی ملنی تھی کیونکہ غلط اور درست کی تمیز کئے بغیر مسلسل اور تواتر کے ساتھ وارد خیالات عام لوگوں کیلئے باعثِ اطمینان ہوتے ہیں. لیکن آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ معروف ماہرِ لسانیات جناب ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب اس پر باقاعدہ تصریح کرچکے ہیں کہ یہ سب تحقیقات اس زمانے میں پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں جب لسانیات کا علم یا تو وجود ہی نہیں رکھتا تھا یا ان جدید خطوط پر استوار نہ تھا جو آج کل ہے. بعد میں لسانیات کے علم نے اتنی ترقی کر لی کہ اس کی کئی شاخیں  ہو گئیں، جن کی مزید ذیلی شاخیں بھی وجود میں آئی مثلاً تاریخی لسانیات، تقابلی لسانیات، تجزیاتی لسانیات، صوتیات، فونیمیات، صرفیات اور نحوی مطالعات وغیرہ. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب دبے لفظوں میں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ گویا یہ بزرگ لسانیات سے واقف نہیں  تھے جبکہ بقولِ مرزا خلیل احمد بیگ اردو کے آغاز اور ارتقا کا مسئلہ خالصتاً لسانیات کا مسئلہ ہے.  وہ لوگ جو لسانیات سے کماحقہٗ واقفیت نہیں  رکھتے نیز ہند آریائی زبانوں  کے تاریخی ارتقا اور ان کے صرفی و نحوی اصولوں  پر نظر نہیں  رکھتے، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں  کہ اردو کوئی کھچڑی زبان ہے اور یہ مختلف زبانوں  کے ملنے سے وجود میں آئی ہے۔ یہ بات کس قدر قابلِ غور ہے کہ لسانیات کا مسئلہ اور گھتی وہ حضرات سلجھا رہے ہیں جو اس فن سے وہ واقفیت نہیں رکھتے جو مطلوب ہے.

اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ پیش کرنے والوں نے یہ اجتہادی مات تب کھائی جب انہوں نے اس خلافِ واقع امر کا اعتراف کیا کہ دو یا زیادہ زبانوں  کے ملنے سے کوئی نئی تیسری زبان وجود میں  آ سکتی ہے۔ حالانکہ یہ بات بلکل غلط اور نادرست ہے۔ معروف نقاد اور ماہرِ لسانیات شوکت سبزواری نے مختلف مآخذات سے اخذ کرکے اس حوالے سے دو تحقیقی اصول پیش کئے ہیں کہ زبانوں  کی تقسیم اور ان کے باہمی رشتوں  کا تعین ان کی صرفی اور نحوی خصوصیات اور ساخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں  ذخیرۂ الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی. کیونکہ ذخیرہ الفاظ ثانوی درجے کا مسئلہ ہے اصل اور مقصود زبان کی صرفی اور نحوی ساخت ہے. دوسرے بات یہ ہے کہ دو زبانوں کے ملنے سے تیسری زبان نہیں بنتی نہ بنائی جاسکتی ہے. یہ خیال غلط اور لسانیات کے اصول کے خلاف ہے کہ دو زبانوں کو ملا کر تیسری زبان تشکیل دی جائے اگر بالفرض ایسا کیا جائے اور خلاف وضع تیسری زبان متعارف کی جائے تو پھر اس تیسری زبان کے تحفظ کا مشکل چیلنج درپیش ہوگا اور اس زبان کو زندہ رکھنے کیلئے انتھک محنت کی ضرورت پڑے گی جس کیلئے کوئی بھی تیار نہ ہوگا. یہ عین ممکن ہے کہ کوئی زبان ارد گرد کے زبانوں اور مقامی بولیوں سے کوئی استفادہ کر لے لیکن مستقلاً ایک تیسری زبان کا وجود اور تخلیق بظاہر ممکن نہیں. زبان مسلسل ارتقاء اور تغیر کے ذریعے وجود میں  آتی ہے. جس کیلئے طویل زمانہ درکار ہوتا ہے۔

ماہرینِ لسانیات کا واضح مؤقف یہ ہے کہ محض ذخیرۂ الفاظ کی بنیاد پر کسی زبان کی اصل اور اس کے آغاز کا اندازہ لگانا اس لیے غلط ہے کہ الفاظ تو ایک زبان سے نکل کر دوسری زبان میں  چلے جاتے ہیں اور دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جس میں  دوسری زبانوں  کے کچھ نہ کچھ الفاظ نہ ہوں. مثال کے طور پر انگریزی میں  دنیا کی سو سے زائد زبانوں  کے الفاظ شامل ہیں. لیکن کوئی نہیں  کہتا کہ انگریزی کھچڑی زبان ہے کیونکہ زبانیں  اس طرح نہیں  بنا کرتیں. ان کی تشکیل اور ارتقا میں صدیاں اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے. اردو کی تشکیل میں  بھی سیکڑوں بلکہ ہزاروں  سال لگے ہیں. اگر باہمی رابطے سے نئی زبان بنا کرتی تو دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں  مختصر رقبے میں کئی مختلف زبانیں  بولی جاتی ہیں. اس طرح کئی ملواں یا کھچڑی زبانیں دنیا میں ہوتیں لیکن ایسا نہیں  ہے. البتہ یہ ضرور ہے کہ صرفی اور نحوی ساخت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ لفظیات بھی اہمیت رکھتی ہے، خاص کر بنیادی الفاظ کو نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا۔ بنیادی الفاظ میں  بعض مصادر (آنا، جانا وغیرہ)، اعداد (ایک، دو، تین وغیرہ)

اعداد اور بنیادی رشتے (ماں، باپ، بھائی، بہن وغیرہ) ایک ہی خاندان کی زبانوں میں مماثلت رکھتے ہیں اور ان سے اس زبان کے ڈھچر کا بہت کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے…)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی