![]() |
محبت نہیں، ضرورت درکار ہے |
✍🏻وسیم اکرم حقانی
غالباً سن 2007 کی بات ہے کہ میں سیالکوٹ کے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا تھا اور آرمی کینٹ میں والد صاحب کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔ آرمی پبلک سکول میں محدود اور متعین نشستوں پر داخلے مکمل ہوچکے تھے جس کی وجہ سے مجبوراً مجھے آرمی کینٹ کے باہر ایک پرائیویٹ سکول میں داخلہ لینا پڑا جہاں آنا جانا بظاہر مشکل تھا لیکن تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے یہ ناگزیر بھی تھا۔ سکول جاتے ہوئے تقریباً پندرہ بیس منٹ کی مسافت پیدل طے کرنی پڑتی تھی اور یہی ایک اور مختصر راستہ تھا جس پر میں پورا سال گزرتا رہا۔ راستے میں ایک کتاب فروش کی دکان تھی جو ایک سن رسیدہ بزرگ کی ذاتی ملکیت تھی اور دکان کے اندر ہی ایک دروازہ گھر کی جانب کھلتا تھا اور یوں وہ صبح سویرے دکان کھول کر بیٹھ جاتا اور دیر تک وہاں دکان پر کتاب بینی میں مشغول رہتا تھا۔ بوڑھا ہونے کے باوجود بھی بہت سنگ دل، تند مزاج اور غصیلا آدمی تھا۔ سلام سن کر ایسے خشم آلود نگاہوں سے دیکھتا تھا جیسے کوئی صدیوں پرانی دشمنی ہو اور اس سلام سے ہی یاد آئی ہو۔ ایک مرتبہ سکول سے واپسی پر میں دکان میں داخل ہوا اور کتابوں کو دیکھنے لگا اور ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب اٹھائی جو مختصر کہانیوں کی کتاب تھی اور وہی زمین پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ مختصر کہانیاں تھیں جو وہی بیٹھے بیٹھے تین چار کہانیاں پڑھ لی، اسی اثناء بزرگ کی نظر مجھ پر پڑی۔ جب اس نے دیکھا کہ ایک کم عمر بچہ غور و خوض سے کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے تو اس نے میرے ہاتھ سے کتاب لی اور بلا تمہید کچھ رقم بتائی جو اب یاد نہیں کہ پندرہ یا بیس روپے تھی، کہ ادا کرو اور کتاب لے جاؤ! یہ سن کر میں بہت شرمندہ ہوا کیونکہ تب مجھے یومیہ خرچ کیلئے تین روپے ملتے تھے جس میں پندرہ، بیس روپے کی کتاب خریدنا ممکن نہ تھا۔ میں نے جب اس کو کہا کہ میں مطلوبہ رقم کا انتظام نہیں کرسکتا تو اس کا چہرہ لال ہوا اور غصے سے برا بھلا کہنا شروع کیا اور میں فوراً وہاں سے روانہ ہوا۔ گھر پہنچا تو ذاتی ڈائری میں اس بزرگ کو بہت فحش اور قبیح عنوان سے یاد کیا اور مکمل واقعہ لکھا کہ کس طرح میں بے آبرو ہوکر وہاں سے نکلا۔ اب بھی جب وہ ڈائری دیکھتا ہوں تو وہ قبیح اور غیر اخلاقی عنوان دیکھ کر خود سے شرما جاتا ہوں اور دل کرتا ہے کہ قلم سے وہ عنوان اور برے القابات حذف کردوں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ تو بچپن کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہوگی کہ ذرا سا شعور کیا پیدا ہوا کہ بچپن کے یادوں کو مٹانے پر آمادہ ہو رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میں ماضی بھولتا ہوں نہ بچپن کے عادات سے چھٹکارا حاصل کر پاتا ہوں کہ میں ان یادوں اور عادتوں کو بھولنا یا ان کو چھوڑنا بچپن اور نادانی کی عمر سے بدنیتی اور خیانت سمجھتا ہوں۔ بہرحال اس بزرگ کا ایک ڈراؤنا اور خوفناک تصور میرے ذہن میں بیٹھ گیا اور اس سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھ کر دور سے ہی راستہ بدلتا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ اتفاق سے تقریباً دس منٹ کا پیدل سفر کرنے کا موقع ملا تو میں نے اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے راستے میں بہت سے سوالات کئے اور وہ بہت سنجیدگی سے جوابات دیتا رہا ممکن ہے کہ وہ مجھے بھول چکا تھا لیکن مجھے تو اس کا تلخ رویہ یاد تھا۔ میں نے اس سے استفسار کیا کہ آپ اس عمر میں سارا دن کتاب بینی کرتے ہیں، گاہک تو بمشکل آپ کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ بھاؤ تاؤ کرنے کے والے آپ ہے نہیں، پھر دکان ختم کیوں نہیں کرتے! وہ بزرگ تھوڑا مسکرایا اور کہا کہ مجھے کتابوں سے محبت ہے اسلئے کتابوں کے بیچوں بیچ رہنا پسند کرتا ہوں۔ میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ آپ اُردو کتابوں کو کیوں اتنے شوق سے پڑھتے ہیں؟ کیونکہ اردو سے مجھے محبت ہے اسلئے میں چاہتا ہوں کہ خالص اردو بولی اور سمجھی جائے اسلئے خود اب تک اردو سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُردو کے سیکھنے سکھانے کیلئے محبت کافی نہیں ضرورت درکار ہوتی ہے جو آج کل ناپید ہے۔ انتہائی گہرا اور سنجیدہ جواب تھا جس پر آج تک میں غور کر رہا ہوں اور اسی سے اردو زبان کے متعلق نت نئے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ واقعہ مجھے آج تک یاد ہے اور میں ابتداء میں جب اس پر غور کرتا تھا تو ضرورت کا مقصد یہ سمجھتا تھا کہ ایسے حالات اور ماحول بنایا جائے کہ لوگ اردو سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہو جائے اور اس کو ضرورت سمجھ کر قبول کریں۔ تو فطری اور طبعی محبت کی وجہ سے میں نے اپنے حصے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا، اردو سیکھنے پر توجہ دی، نظم و نثر کو پڑھنے لگا، قومی زبان کو فروغ دینے کا نعرہ لگایا اور اردو ادیبوں کو دل و جان سے محبت اور عزت دی اور ان کے قدیم اور جدید علمی مواد کو دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی اور سوشل و پرنٹ میڈیا پر ان لوگوں کا ساتھ دیا جو کسی سطح پر بھی اردو کی ترویج و اشاعت کیلئے کوششوں میں مصروف تھے۔ معلوم نہیں کہ میرے اس کوشش پر کوئی نتیجہ مرتب ہوا بھی یا نہیں؟ لیکن اتنا ضرور حال ہی میں ہوا کہ اردو کو کم ازکم رومن رسم الخط میں لکھنے پر پنجاب کی حکومت نے پابندی عائد کی جس کا سن کر ہم نے وزیر اعلٰی پنجاب کو کم ازکم 2023 تک وزارت اعلٰی کے منصب پر فائز رہنے کی دعا دی۔ وہ الگ بات ہے کہ اب وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ ایسے فرد کو سپرد کر رہا ہے جو کوئی سیاسی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا لیکن ہم نے وزیر اعلٰی پنجاب کے اس اقدام کو کھلے دل سے خوش آئند اور قابلِ فخر قرار دیا۔
لیکن میں ماضی قریب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ضرورت کا یہ معنی اور مطلب ہرگز درست نہیں ہوسکتا جو اب تک میں سمجھتا رہا ہوں، اردو زبان کی ترویج و فروغ کیلئے جو ضرورت درکار ہے وہ یہ ہے کہ ہم اردو کا تعلق اور رابطہ براہِ راست تجارت اور ملازمت کے منڈی کے ساتھ جوڑے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان کے ساتھ ایک تاریخ اور تہذیب جوڑی رہتی ہے اور زبان کے پھلنے پھولنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو سماج میں بولا اور سمجھا جائے لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جو زبان علم اور ضرورت پوری کرتی ہے وہی زبان معاشرے میں فروغ پاتی ہے۔ اردو زبان کا معاملہ اس سے جدا ہرگز نہیں کیونکہ دیگر زبانوں کی طرح اُردو بھی ایک زبان ہے جس کو پاک وہند میں عوام و خواص نے قبول کیا اور فطری طور پر رابطہ کا بہترین ذریعہ بن کر آج تک زندہ ہے۔ لیکن اس کی ترویج و اشاعت کیلئے صرف محبت کافی نہیں بلکہ ضرورت بھی درکار ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا صرف قومی زبان کا فروغ مسائل کا حل ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ مسائل کے حل کیلئے قومی زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ ضرورت کی تکمیل بھی ہے کہ اردو ہماری ضرورت کو پورا کر پاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس کی ترویج کا مقصد کیا ہے؟ اگر پورا کر پاتی ہے تو ہم ترقی کے سفر میں اتنے پیچھے کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان صرف رابطے کی زبان کے طور پر کام آ سکتی ہے اور اس سے ضرورت کا پورا کرنا ممکن نہیں۔ اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ ہم ملازمت اور کاروبار کی منڈی کو براہِ راست اردو زبان کے ساتھ جوڑے تب جا کر اردو زبان کو حقیقی مقام ملے گا۔
جتنے بھی جدید علوم ہے، ان کا اکثر و بیشتر حصہ انگریزی زبان میں ہے۔ اب اگر ایک بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو میٹرک کے بعد آپ اس کو ضروری انگریزی کتاب ہاتھ میں تھما کر دیں گے کیونکہ اردو زبان میں اس کیلئے کوئی خاطر خواہ یا جدید مواد موجود نہیں، اب جو بچہ دس سال تک اردو پڑھا ہو اور انگریزی زبان کے ساتھ اس کا تعلق صرف رٹے تک قائم ہو تو وہ بچہ ان مشکل اور انتہائی مباحثِ فن کو کیسے سمجھے گا؟ ہم گلہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ انگریزی زبان کو سیکھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ بلکل کرنا چاہیے کیونکہ انگریزی زبان ان کو روزگار دیتی ہے اور ان کیلئے مستقبل میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں تو وہ انگریزی زبان سے محبت یا اس پر فخر کیوں نہ کریں؟ عوام بچارے صرف زبان نہیں اس تہذیب کو بھی دل و جان سے قبول کرتے ہیں جو ان کیلئے رعایت بخش ہو۔ اب آپ اپنے مقامی زبانوں کے متعلق سوچیں کہ ہم میں سے کون اپنی اولاد کو پشتو زبان پڑھانا چاہتا ہے؟ کوئی بھی نہیں حالانکہ پشتو ہماری مادری زبان ہے، پشتو کے ساتھ ہماری تہذیب اور تاریخ جوڑی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنے آنے والے نسل کو پشتو پڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ نہ تو پشتو میں علم ہے یعنی جدید علوم ہیں اور نہ ہی پشتو سے ہماری کوئی خاطر خواہ ضرورت وابستہ ہے۔ اب ہم کتنے ہی قوم پرست بن جائے، قومی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں کر لیں جب تک اپنے ضروریات کو اردو زبان سے ہی حاصل کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائیں گے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ اس کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ تمام جدید علوم اردو زبان میں منتقل کئے جائیں، اور اردو کو حقیقی معنوں میں بحیثیتِ قومی زبان نافذ کیا جائے۔ اس عملی نفاذ سے کوئی اور خاطر خواہ فائدہ نہیں ملے گا لیکن اس زبان کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ ضرور ہوگا۔ اس کے بعد تمام تعلیمی اداروں میں اُردو زبان کے نفاذ اور فروغ کیلئے مؤثر اور فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہماری نوجوان نسل انگریزی کو صرف فارن لینگویج (بیرونی زبان) کے حیثیت سے سیکھے کیونکہ اس سے فرار بھی ممکن نہیں، لیکن اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے وہ اردو کو ہی پڑھے اور سیکھے۔ اب کیا یہ ممکن ہے؟ بلکل ہے لیکن اس کیلئے درکار ہمت و استقامت ہم میں ہرگز نہیں، ہم سہولت پسند بن چکے ہیں اور ہمارے رگ رگ میں سستی اور کاہلی بس چکی ہے اگر ہم بحثیت قوم اس کام کو پورا کرنے کا عہد کرے اور اس کیلئے کوشش شروع کرے تو ذاتی تنازعات میں کون الجھے گا؟ سیاست کے نام پر کاروبار کون کرے گا؟ غیرت کے نام پر اجرتی قاتل کہاں سے پیدا ہونگے؟ سب سے بڑا ہو کر مغرب اور مغربی تہذیب کے دلدادے کیسے پیدا کئے جائیں گے؟ حالانکہ ہمارے معاشرے میں ان کا وجود بھی ضروری ہے۔
نوٹ: اس سلسلہ کی پہلی قسط یہاں پڑھیں☜ قسط اول