٭~محمود درویش
![]() |
اُردو نگاری: ڈاکٹر رضوان وزیر جانشاہی |
میں اب کہاں ہوں؟ میری وہ چھوٹی سی روداد و کہانی کہاں بے زبان بن کر چھپ گئی؟ میری وہ معمولی اور بالی بھولی بات کہاں فراموش کر دی گئی؟ کہاں ہے وہ میری معمولی سی حکایت؟ کہاں تک اور کس حد تک میری وہ آسان و عام فہم بات پچیدگیوں کی نذر کردی؟ اب میرے وہ کم، اور قابل برداشت درد کہاں ہے؟ میری وہ کم و معمولی سی پریشانی کہاں ہے؟ میری بات اور میرا درد اس نہج کا نہ تھا جو ناقابل فہم یا ناقابل علاج ہو بلکہ بہت آسان سی تھی اور بہت ہلکا سا تھا، اس نہج سے اٹھا کر کہاں لے گئے یہ سب کچھ؟ خود سے بیگانہ کردیا اور یوں لگا جیسے میں ناقابل شناخت ہوں، گم کردیا گیا، ناقابل برداشت اور بہت پیچیدہ اور بہت مشکل بنادیا گیا۔
مجھے اب رونے کی خواہش ہے، میں چاہتا ہوں کہ زار و قطار یوں چیخ و پکار سے روؤں کہ آنسو سیلاب بن کر سب بہا لے جائے! دل و دماغ درد و اندوہ کے طوفان سے بے قرار و بے کنار بن پڑے ہیں، آنسو سیلاب بن جائے، آشکوں کی حرارت آتش فشاں ٹوٹ پڑے۔ دل رونے کے لیے سرگوشی کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔
اپنی تنہائی میں، سب کی نظروں سے اوجھل ہو کر کسی گوشہ نشینی میں رو دیجیے گا، کسی کے سامنے نہیں۔ کسی کی امید اور دلاسے کی خواہش پر نہیں، خود اپنے آپ سے رو! جتنی طاقت ہے رونے کی، اسی زور و طاقت کے ساتھ رو، جتنا ہوسکے، آنسو بہا دیجیے۔ خوب ماتم کیجیے گا، اپنی تنہائی کے ساتھ!۔
اب کوئی چیز مجھے مرغوب یا تعجب کن نہیں لگتی، بلکہ میں تھک گیا ہوں، نڈھال بن گیا ہوں۔ میں نے زار و قطار اور اپنی اونچی آواز میں چیخ و پکار کی تاکہ میں اپنی ذات اور اندرون کو اس محرومی سے جگا سکوں، اس غرابت و اجنبیت سے رہائی پا سکوں، باہر نکال سکوں، خود کو اس ذلت و رسوائی سے آگاہ کر سکوں! اس شکست و ریخت سے خود کو نجات دلا سکوں، کیا مجھ میں اس سے نجات پانے کی سکت و طاقت موجود ہے؟ کیا یہی ہمت میں مجھ میں آ سکے گی؟!
ھل آنا حقا آنا؟
کیا واقعی میں مجھ میں جلوہ گر ہے؟ کیا واقعی میں خود اپنی ذات و صفات میں پایا جاتا ہوں؟ کیا واقعی میں وہ ہوں جو میں ہوں؟ کیا واقعی میں خود سے متفق ہوں؟ کیا میں خود سے بیگانہ اور غیر تو نہیں ہوں؟
لا شئ یعجبنی،!
کوئی چیز اب قابل التفات نہیں رہی، اپنا بوجھدار اور منقبض نفس کو خود اپنی ذات کی تعاون اور حمایت پر مائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، یہ سب کچھ میں اپنی تنہائی میں سر انجام دینے لگتا ہوں، اسی تنہائی میں اپنا نفس اپنی ذات سے دل برداشتہ بن جاتا ہے، سب کچھ سے روگردانی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
وحدی ارادو نفسی الثکلی، فتابی ان تساعدنی علی نفسی"
میں کہاں ہوں؟ این انا؟ میں خود کا نہیں رہا، میں اپنا نہیں رہا!
انا لست لی، انا لست!