ایک تخیلاتی سفر
ایک بال و پر شکستہ، عمر رسیدہ نوجوان، سہما سہما خوف زدہ عاشق، خطاکار ملزم، نام کا خوش رو و حسین مگر کردار کا زشت رو، باطنی وجود بد رو، ظاہری ساخت کریہہ المنظر اور ایک بے ڈول سا فرد جو اپنے محبوب کے چودہ سو سال بعد آیا، ایک پسماندہ علاقے میں جنم لیتا ہے اور ہوش سنبھالتے ہی بات بات پر ایک کامل و اکمل فرد کا حوالہ سنتا ہے۔ چلتے ہوئے اس عظیم راہی کا حوالہ، تو کھاتے پیتے اس کامل تر فرد کا طریقہ سننے کو ملتا ہے، یعنی سوتے جاگتے اسی طلسماتی شخصیت کے اتباع و اطاعت پر ابھرا جا رہا ہے۔ یہ سن سن کر وہ مجبور ہوا کہ اس عظیم رہبر و رہنما، جس کی صورت دیکھ نہیں پاتا، عکس محفوظ نہیں، کوئی مجسمہ نہیں، صرف سیرت و کردار کے تذکرے ہر خاص و عام سے سننے کو مل رہے ہیں، کے متعلق جانکاری اور شناسائی ضروری ہے۔
وہ جوں ہی شعور و آگاہی کے منازل طے کرتا گیا توں ہی اس کا تجسس بڑھتا گیا اور اس کا سینہ سوالات سے بھرپور ہوتا گیا۔ نام کیا ہے؟ نسب کیسا ہے؟ پیدائش کہاں ہوئی؟ بچپن کیسے گزرا؟ اردگرد کا ماحول کیسے تھا؟ ساتھی کون تھے؟ مسکن وغیرہ کے متعلق لامحدود سوالات، نہ جانے کتنے پہلو غور و فکر کےلیے اور کتنے جہات سمجھنے کےلئے میسر آئے، لیکن اس سے بڑھ کر وہ اس عظیم انسانیت ساز شخصیت سے جڑی ہر چیز کو بنظر فراست دیکھنے کا خواہاں تھا کہ جہاں یہ سورج طلوع ہوا، ان پہاڑوں پر چڑھ کر اس تمام علاقے کو بنظر تعمق دیکھا جائے اور اس وطن کی دھول اور گرد و غبار کو آنکھوں کا سرمہ بنایا جائے اور وہاں کے پانی کو آبِ حیات سمجھ کر نوش کیا جائے۔
یہ ایک تمنا تھی، ایک خواہش تھی جو وہ بچپن سے پالتا رہا لیکن ظاہر کوئی صورت نکلنے پر آمادہ نہ تھی۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
وہ اس خواہش کا بوجھ اٹھائے کافی تھک چکا تھا لیکن پھر وہ ایک تخیلاتی سفر سے تازہ دم ہوا اور تاحال اس انتظار میں جھلس رہا ہے اور سب سے یہی آرزو کا تذکرہ کرتا رہا کہ ؏
کوئی درگاہ یا دربار بتا دو لوگوں
مجھ کو بھی آن ملے یار بتا دو لوگوں
جانے کیوں آنکھ بھی پتھرا سی گئی ہے میری
کوئی تو صورتِ دیدار بتا دو لوگوں
یہ جو صدیوں کی مسافت میں گھری بیٹھی ہوں
ایک ساعت کی طلب گار بتا دو لوگوں
میری وحشت کو بھی محدود کرے وہ آکر
کھینچ دے مجھ پہ بھی پرکار بتا دو لوگوں
اس کو خود نہیں معلوم کہ کب بلاوا آیا اور اس کو حاضری کی اجازت ملی، لیکن جوں ہی اس کو اطلاع ملی تو پیادہ پائی پر تیار بیٹھا تھا، اتنا ہوش بھی نہیں رہا کہ سفر کا رخ و سمت درست کرتا، بس جس طرف رخ تھا، اسی سمت روانہ ہوا۔ سواریوں کی بہتات میں بھی وہ جفا کش پیادہ پا روانہ ہوا۔ خالی پیٹ، خالی جیب، تن پر ایک قیمص ایک شلوار اور ننگے سر پیر، بسوئے کوئے جاناں روانہ ہوا۔ چلتے چلتے ایڑیاں پھٹ چکی تھیں اور پاؤں سوج چکے لیکن سفر کا شوق تھا کہ پیروں سے خون رستا گیا لیکن ایک لمحہ بھی توقف گوارا نہیں کیا، چلنا دشوار ہوا تو گھنٹوں کے بل چلنے لگا کیونکہ وہ رکنے کی مصیبت سے آشنا تھا۔ ؏
مجھے گھٹنوں کے بل چلنا پڑے گا
میں رکنے کی مصیبت جانتا ہوں
وا حسرتاہ! ہائے افسوس!
وہ نحیف اور لاغر وجود گھٹنوں کے بل چلتا بھی، تو کتنی مسافت طے کرتا؟ میل، دو میل یا ہزار میل...؟ اس سے کہاں حقِ محبوب ادا ہوتا؟ اس نیاز مندی اور فروتنی سے کہاں کام چلتا؟ وہ بڑا نکتہ ور عاشق تھا، وہ خود کی باطنی گندگی سے واقف تھا، جو گھٹنوں کے بل چلنے سے کہاں صاف ہونے والی تھی۔ وہ آنسو کی جگہ خون بہانے لگا اور گھٹنوں کے بجائے اب سینے کے بل رینگنے کا سفر شروع ہوا۔ ؏
سینے کے بل رینگ کر سیمائیں کیں پار
سینے پر رینگتے ہوئے اس کے دل سے حسیناؤں کی محبت، کسی زخم سے نکلنے والی پیپ کی طرح بہنے لگی، وہ جتنا سینہ زمین پر رگڑتا رہا، اتنا ہی سینے سے بوجھ اتارتا گیا۔
چلتے چلتے اس کے تن پر صرف ستر چھپانے کو کپڑا بچا تھا، جسم پر زخموں کے بےشمار نشانات بتا رہے تھے کہ سفر کافی تکلیف دہ اور پرکھٹن تھا۔ ؏
نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے
گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر
وقت اور ایام کی قید و بند سے وہ آغازِ سفر میں ہی آزاد ہوچکا تھا، تبھی تو منزل کے قریب پہنچ کر یاد نہیں آ رہا تھا کہ کتنے دن سفر کیا اور کب پہنچوں گا؟ لیکن جس قدر وہ منزل کی طرف بڑھتا گیا، روحانی و باطنی بےچینی اور اضطراب بڑھتا گیا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی اور آنکھوں سے آنسو مزید تیزی سے بہنے لگے۔ ہاتھوں پر کپکپی طاری ہوئی اور پیروں میں بیڑیاں محسوس ہونے لگی۔ کندھوں پر بھاری بھرکم بوجھ محسوس کیا تو آنکھوں نے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ خالقِ ارض و سما یہ منظر دیکھتا رہا لیکن امتحان کی تکمیل کے واسطے اس کو یوں ہی بے یار و مددگار رہنے دیا۔ نہ جانے کتنے فرشتے مدد کو آ لپکے ہوں گے لیکن ان کو اجازت نہ دی گئی۔ غالباً اسی جگہ پر کھڑے ہوکر عشاق سبزگنبد کا نظارہ کرتے ہیں، لیکن یہ بدنصیب اسی جگہ مجرم کی طرح کھڑا تھا مگر آنکھوں کے سامنے شدت شوق اور بےتابی کے دھواں سامنے تھا۔ بہت کوشش کی لیکن سامنے سبز گنبد وہ دیکھ نہ سکا۔ ایڑیاں اٹھا کر دیکھنے کی کوشش میں وہ پیروں کے دائمی مرض میں مبتلا معذور، عمر رسیدہ نوجوان جیتے جی دونوں پیروں کو ٹوٹتا دیکھ رہا تھا لیکن اس تکلیف کے سامنے بھی وہ بے بس تھا اور لاچارگی کی عالم میں بس روتا جا رہا تھا۔ یہ اٹھنے کی آخری خواہش ثابت ہوئی اور اب وہ زمین پر اوندھے منہ گر پڑا تھا اور سسکیوں کی ہلکی آواز اس کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کر رہی تھی۔ سانس لینے میں شدت کی تکلیف محسوس کر رہا تھا کہ اس لمحے وہ جان گیا کہ دیگر ہزار خواہشوں اور حسرتوں کی طرح یہ خواہش بھی خواہش ہی رہ جائے گی اور وہ جیتے جی سبز گنبد کا نظارہ کرسکتا ہے نہ محسنِ اعظم، پیغمبرِ انقلابﷺ کے روضہ پر سلام پیش کرسکتا ہے۔ ؏
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ادھوری خواہش، نامکمل آرزو، صدیوں کی تھکاوٹ اور لامحدود مصیبتوں اور مشکلوں کا بوجھ اٹھائے وہ بیچارا یوں ہی زمین پر پڑا تھا کہ عزرائیل علیہ السلام آئے اور نہ صرف روح کو قفس عنصری سے آزاد کیا بلکہ اس تخیلاتی سفر کا آخری باب بھی خود مکمل کیا جس کو سوچتے اور لکھتے ہوئے ایک لکھاری اور قاری کی آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان اُمڈ آیا ہے۔
سمندر کے کنارے پیاسا مرنے والا شاید یہ پہلا عاشق تھا۔ ؏
مترنم ہے مری روح میں یوں تیری صدا
آبشاروں کی سکوں ریز روانی جیسے
نور و نکہت میں نہایا ہوا وہ تیرا کلام
رود کوثر کا چمکتا ہوا پانی جیسے
میری پلکوں پہ ہیں یوں گوہر شبنم غلطاں
میرے ہونٹوں پہ ہو پھولوں کی کہانی جیسے
میرے سانسوں میں مچلتی ہے حنا کی خوشبو
تیری نوخیز محبت کی نشانی جیسے