معرکۂ بدر



معرکۂ بدر

🪶وسیم اکرم حقانؔی




”یا رسول اللہﷺ! ہم آپﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپﷺ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپﷺ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہﷺ! جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے، قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپﷺ کو معبوث کیا، اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا“۔


ایک عظیم مدبر اور سیاست دان، سید الخزرج کے لقب سے مشہور ایک تاریخی علمی شخصیت جنہوں نے عہدِ رسالتﷺ میں فن کتابت کو عام کیا، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے مشاورتی اجلاس میں انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ عظیم تاریخی کلمات ادا کئے جو آج بھی فضا میں گونج رہے ہیں۔ مدینہ منورہ میں قریشی لشکر کی اطلاع ملتے ہی سپہ سالار اعظم حضور نبی کریمﷺ نے مہاجرین و انصار کا مشاورتی اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہوتے ہی محسنِ اعظمﷺ نے موجودہ حالات اور کفار کی پیش قدمی کے متعلق حاضرینِ اجلاس کو آگاہ فرمایا اور ان سے رائے طلب کی۔ پہلی فرصت میں ہی مہاجرین نے جانثاری اور وفاداری کا اعلان کیا اور ہر قسم کے ممکنہ حالات کیلئے خود کو پیش کیا۔ حضور نبی کریمﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور اس کی حکمت یہ تھی کہ آپﷺ انصار کی رائے جاننا چاہتے تھے کہ اس کے متعلق انصار کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ کیونکہ ان کے ساتھ معاہدہ مدینہ منورہ کے اندر دفاع اور قتال میں مشارکت کا ہوا تھا جبکہ یہ معاملہ مدینہ منورہ سے باہر کا تھا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اور وہ عاشق ہی کیا؟ جو معشوق کی ادا کو نہ سمجھ سکے، فوراً گویا ہوئے کہ:

”غالباً پیغمبر انقلابﷺ کا روئے سخن ہماری طرف ہے! آپﷺ نے فرمایا: ہاں… سعد آپ سمجھ گئے ہیں۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ:

”یا رسول اللہﷺ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں...........“


حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ خیالات کا اظہار فرما کر بیٹھ گئے کہ اسی اثنا عہد رسالتﷺ کے عظیم سائنسدان، طویل القامت، عظیم البطن وفربہ اندام خوبصورت نوجوان، جن کے سر کے بال گھنے، آبرو پیوستہ اورداڑھی نہایت موزوں وخوبصورت تھی، حضرت مقداد بن اسود الکندی رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور جوشیلے انداز میں فرمایا کہ:-

”ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے“۔


ہائے…! آپ ان کی طرح کہاں ہو سکتے ہیں؟ رضی اللہ عنہم…


مشاورتی اجلاس انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوا، اور اجلاس  کے بعد ہی حضور نبی کریمﷺ نے مجاہدینِ اسلام کو تیاری کا حکم دیا اور ذوق شہادت سے لبریز مسلمان جنگ کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ سب مسلمانوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر شرکت کی کوشش کی لیکن اس کے  باوجود بھی مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کار زار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ مورخین کے مطابق پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا، ایک ہزار کا لشکر جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے، وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرتِ کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

حضور نبی کریمﷺ رات بھر آہ و زاری میں مصروف رہے اور مسلمانوں کی بے سر و سامانی دیکھ کر بارگاہِ الٰہی میں گویا ہوئے کہ:

”اے خدا! اے میرے مولا! اے میرے قادر و غالب پروردگار!  یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی۔“

حضور نبی کریمﷺ کی دعا رنگ لے آئی اور فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔ صبح کو اللہ تعالیٰ نے باران رحمت سے مسلمانوں کو درپیش پانی کا مسئلہ اور ریت کی مشکل حل کی۔ ریت مکمل جم گئی اور مسلمانوں نے پانی محفوظ کر لیا۔ قریشی لشکر کے پڑاؤ والی مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہوگیا۔

17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے وقت حضور نبی کریمﷺ نے جہاد کی تلقین کی۔ رسول اللہﷺ  کے ارشاد کے مطابق انھوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کے طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ صدیقِ اکبر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور ابوحذیفہ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے، اس کے بعد ایک عظیم جنگ شروع ہوئی جو حق و باطل کے مابین پہلی مسلح جنگ تھی۔ مسلمانوں نے شہادت کے شوق میں جرات اور بہادری کی مثال قائم کی۔ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے، انھوں نے حضور نبی کریمﷺ کا اعلان:

’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا:

’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘

یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا:

’’چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ وہ نبی کریمﷺ  کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘۔

اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل، جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا بازو لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انھوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔

اس میدان بدر میں ابوجہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور دیگر اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل 14 آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے اور 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بن عبد المطلب ’’حضور کے چچا‘‘ عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر، سہیل بن عمرو اور عبد اللہ بن زمعہ وغیرہ۔

یہ وہ عظیم معرکہ تھا جس کے دائمی اثرات تاریخ اسلامی کے صفحات پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ ایک مغربی مورخ کے الفاظ ہیں:

’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب تھا، مگر بدر کے بعد وہ مذہبِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی