میثاقِ مدینہ



میثاقِ مدینہ

🪶وسیم اکرم حقانؔی



حضور نبی کریمﷺ ایک مذہبی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منظم سیاسی و ریاستی نظم کے بانی اؤل بھی تھے۔ نبی کریمﷺ نے مکہ مکرمہ میں باقاعدہ کئی سالوں پر محیط تربیت سازی کا عمل جاری رکھا اور اپنے مخلص رفقاء کی ذہنی و فکری تربیت کی اور ایک منظم ریاست کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔ مکہ مکرمہ میں مسلسل جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم آیا۔ ایک منظم و مستحکم ریاست کی تشکیل کا خواب آنکھوں میں سجائے حضور نبی کریمﷺ اپنے مخلص رفقاء کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے اور باذنِ الہی مدینہ منورہ چلے گئے۔ ایک باکردار مذہبی رہنما اور انقلابی لیڈر نبی کریمﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد اس بات کے امکانات بہت روشن ہو گئے کہ مدینہ طیبہ لا قانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک منظم معاشرے میں ڈھل جا ئے اور یہی حضورِ اقدسﷺ کا اصولی و بنیادی مقصد بھی تھا۔ پیغمبر انقلابﷺ نے اپنی پیغمبرانہ اور خداداد صلاحیتوں کے ذریعے شروع ہی سے ایسے اقدامات کیے جن سے آگے چل کر نہ صرف ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی بلکہ معاشرے کی عمومی حالت یکسر تبدیل ہوگئی اور ایک پرسکون اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔

منجملہ ان اقدامات میں سے اہم اور نمایاں نتائج کے حامل وہ معاہدات تھے جو آپﷺ نے یہود و نصاریٰ سمیت کفار مکہ اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ کیے۔ ان میں سب سے زیادہ اسلام دشمن سیکولر اکائیاں تھیں جن کے ساتھ آپ نے حالات کے تناظر میں مختلف نوعیت کے اتحادی معاہدے کیے، لیکن آپ کے دو اتحادی معاہدے بطورِ خاص نتائج کے اعتبار سے تاریخی اور فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک میثاقِ مدینہ اور دوسرا معاہدہ حدیبیہ کے نام سے موسوم ہیں۔


میثاقِ مدینہ کے مرکزی نکات:-

میثاقِ مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور و آئین ہے جس کے نتیجے میں ریاستِ مدینہ کی  صورت ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم ہوئی۔ اس دستور کے سب نکات بہت اہم ہیں لیکن ان میں سب سے اہم اور مرکزی نکتہ حاکمیت اعلیٰ کا ہے۔


اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ:

(Sovereignty of Almighty Allah)


یہ نکتہ اپنی معنویت کے اعتبار سے تمام جزئیات اور کلیات پر حاوی ہے کہ حاکمیت اعلیٰ ترین صرف اللہ تعالیٰ کو سزوار ہے، کوئی فرد بھی اس میں شریک نہیں۔ اس دستور سازی کے وقت مدینہ منورہ میں مختلف مذہبی اور نسلی قومیتیں آباد تھیں جن کے وجود کو آئینی طور پر اس دستور میں تسلیم بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی ان کو سب مختلف المذہب اقوام و ملل کو اس نکتہ پر قائل کیا گیا کہ ریاستی معاملات اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کے تحت ہی چلائے جائیں گے۔ اس میں نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ غیر مسلم اقوام کا بھی فائدہ ہے لہٰذا اس اصول کے طے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حاکمیت اعلیٰ کو کسی دنیاوی شخصیت یا ادارے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے متعلق کر دینا ہی وہ بنیادی قدم تھا جس نے اسلامی ریاست کو ایک غیر اسلامی ریاست سے ممتاز کر دیا۔ میثاقِ مدینہ میں یہ قرار دیا گیا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالی ہی کےلیے ہے اور ہر انفرادی اور اجتماعی و ریاستی معاملے میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔


"و انکم مما اختلفتم فيه من شيء فان مرده الي الله و الي محمد"


”اور یہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو، تو اسے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)“


"و انه ما کان بين اهل هذه الصحيفة من حدث او اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله و الي محمد رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم و ان الله علي اتقي ما في هذه الصحيفة و ابره"


”اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو بھی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ڈر ہو، اس میں خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے“


اس آئین و دستور پر غور کا وقت ہوا چاہتا ہے، اس آئین کا ایک ایک دفعہ محفوظ اور قابلِ غور ہے لیکن چونکہ ہم یہاں صرف حضور نبی کریمﷺ کی زندگی کے اہم اہم واقعات کو ذکر کر رہے ہیں، جس کی وجہ فقط اس آئین کے مرکزی نکتہ پر اکتفا کیا گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی