ایک تعمیری شکست



ایک تعمیری شکست

🪶وسیم اکرم حقانؔی




”جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے“۔


غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد اینٹی اسلامک فورسز غصے اور انتقام کی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ عرب کے تمام قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اس بات کا یقین ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے اور نہ ہی مسلمان اب صرف مذہبی حیثیت سے رہیں گے، بلکہ وہ ریاستی نظم و نسق سنبھال کر غیر اسلامی قوتوں کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ وہ مسلمانوں کی سیاسی و انتظامی پالیسوں سے خوف کھانے لگے اور اپنا مستقبل انتہائی تاریک نظر آنے لگا۔ مشرکینِ مکہ  اپنی بے عزتی اور بدترین شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور ساتھ ہی ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ اس جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کردیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابوسفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کےلیے مال و دولت بھی اکٹھا کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے، کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور نبی کریمﷺ کے چچا حمزہ رَضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجا چبائے گی چنانچہ اس مقصد کےلیے اس نے حمزہ رَضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کےلیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔

پیغمبر انقلابﷺ کے چچا عباس نے، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انھیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضورﷺ نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ کچھ صحابہ کرام کی رائے مدینہ منورہ میں رہ دفاع کرنے کی تھی اور وہ اپنا تجربہ بتا رہے تھے کہ ہم نے جب بھی مدینہ منورہ میں رہ کر دفاع کیا ہے وہ جنگ ہم جیتے ہیں۔ کیونکہ پھر ہم تلواروں اور تیروں سے جبکہ ہمارے خواتین اور بچے گھر کے چھتوں سے پتھر برسا کر دشمن کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے صحابہ کرام جو غزوہ بدر میں شرکت سے رہ گئے تھے وہ شوق شہادت میں باہر نکل کر مقابلے کے خواہشمند تھے۔ بہرحال فیصلہ ہوا کہ باہر جا کر جنگ لڑیں گے اگر چہ صحابہ کرام کو اپنے اصرار پر شرمندگی محسوس ہوئی اور حضور نبی کریمﷺ سے اظہار بھی کیا لیکن تب تک آپﷺ جنگی لباس زیب تن فرما چکے تھے۔ چنانچہ نمازِ جمعہ کے بعد حضور نبی کریمﷺ نے اصحاب کرام کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوگئے۔ راستے میں ہی عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آگئیں، احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضورﷺ نے عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔

مشرکین کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوا اور پہلے مرحلے میں انفرادی طور پر لڑنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اجتماعی طور پر بھرپور حملہ کر دیا اور اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتداً زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ پر تعینات اصحاب نے حضور نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یک دم پیچھے سے وار کر دیا۔ اسی اثناء میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت محمدﷺ شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اور راہِ فرار اختیار کی۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہوگئے۔ کچھ اردگرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور نبی کریمﷺ کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں، کچھ لوگ حضورﷺ کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی۔ اس دوران حضور نبی کریمﷺ کے دانت شہید ہوئے۔ حمزہ رَضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوگئے۔ اس بارے میں اللہ نے قران میں فرمایا:

”جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے“۔


کچھ وقفے کے بعد اصحاب میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حمزہ رَضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجا نکال کر چبایا جس کا حضور نبی کریمﷺ  کو بے حد دکھ ہوا۔


میں ذاتی طور پر اس تعمیری شکست سے یہ اخذ کرتا ہوں کہ جنگ جیتنے کےلیے دو امور انتہائی ضروری ہے، اگر ان میں ایک بھی نہ ہو تو جنگ کا جیتنا مشکل ہوگا۔ اولاً مضبوط عقیدہ و نظریہ، جس پر لڑا جائے اس پر جان وار دینے کا بھرپور جذبہ ہو۔ جبکہ دوسرا امر منظم حکمت عملی و جنگی منصوبہ بندی، جس کے بغیر جنگ جیتنا مشکل ہے۔ جنگ احد میں صحابہ کرام کے ایمان و نظریہ میں کوئی فرق نہیں آیا تھا لیکن جنگی منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں معمولی کوتاہی کی وجہ سے تعمیری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ دوسری طرف مشرکین مکہ و کفار کا اپنے نظریہ پر مر مٹنے کا جذبہ بھی تھا اور جنگی منصوبہ بندی بھی درست تھی جس کی وجہ سے وہ وقتی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی