پیغمبرِ انقلابﷺ کا پہلا انقلابی قدم



پیغمبرِ انقلابﷺ کا پہلا انقلابی قدم

🪶وسیم اکرم حقانؔی




”اے ایمان والو! اے میرے عزیز ساتھیو! اے میرے مخلص جانثارو! میں تمھیں اللہ تعالی سے ڈرنے اور تقویٰ کی تلقین کرتا ہوں، کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو جو بہترین نصیحت اور تلقین کرسکتا ہے، وہ تقویٰ کی نصیحت ہے کہ اس کو آخرت کی طرف متوجہ کرے اور اسے تقویٰ کی نصیحت کرے۔ اس لئے تمہیں چاہیے کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم کو بچانا چاہتے ہیں، ان سے بچ کر رہو! اس سے بہتر کوئی نصیحت نہیں، نہ اس سے بڑھ کر کوئی وعظ ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے خوف کھاتے ہوئے اچھے عمل کرے گا، اس کا تقویٰ آخرت میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ جو شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کا معاملہ، خفیہ و ظاہر، درست رکھے گا، محض اس کی رضا کی خاطر تو اس کا دنیا میں بھی ذکر بلند ہوگا اور روزِ آخرت کےلئے بھی ذخیرہ ہوجائے گا۔ اس دن کے لئے جب ہر انسان آگے بھیجے ہوئے نیک اعمال کا سخت محتاج ہوگا۔ جو شخص اس راستے پر نہیں چلے گا، وہ بروز قیامت اپنی بداعمالیوں کو روبرو دیکھ کر حسرت کرے گا کہ۔۔۔ ’’کاش! میرے اور ان اعمالِ بد کے درمیان طویل فاصلہ حائل ہوتا۔‘‘

یہ پہلا وہ تاریخی خطبہ تھا جو محسنِ اعظمﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد فرمایا۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کی باضابطہ اجازت پا کر راستے کی تکلیفوں اور مشقتوں کو برداشت کرتے ہوئے محسنِ اعظمﷺ اپنے رفیقِ سفر کے ہمراہ بسوئے مدینہ منورہ گامزن تھے۔ یہاں محسنِ اعظم ﷺ اور صدیق اکبرؓ کی روانگی کی خبر مدینہ منورہ پہنچ چکی تھی۔ اہلِ مدینہ چشم براہ تھے اور ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ روزانہ علیٰ الصبح شہر سے چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان نکل کر انتظار کرتے اور دوپہر تک انتظار کرکے لوٹ جاتے تھے۔ ایک دن حسبِ معمول واپس جارہے تھے کہ ایک یہودی نے اونچے ٹیلے سے دیکھا کہ نبی کریمﷺ سفید کپڑوں میں ملبوس تشریف لا رہے ہیں۔ اس نے بلند آواز سے کہا:

’’عرب کے لوگو! اے انتظار کرنے والو! جس کا تم انتظار کررہے تھے وہ آگئے ہیں۔‘‘


تمام شہر تکبیروں سے گونج اٹھا اور انصار دیدارِ یار کی خواہش سے سرشار گھروں سے نکل آئے۔ محسنِ اعظمﷺ کے استقبال کے لئے سارا مدینہ اُمڈ آیا۔ مسلمان بچوں نے خوشی کے گیت گا کر پیغمبر اسلامﷺ کو خوش آمدید کہا۔ رحمۃ اللعالمینﷺ نے ان بچوں کو پیار کیا اور دعائیں دیں۔ شمع کی پروانوں کی طرح مدینہ کے شہری محسنِ اعظمﷺ کے گرد جمع ہوگئے۔ مؤرخین فرماتے ہیں کہ مدینے پہنچ کر محسنِ انسانیتﷺ نے قُبا میں قیام فرمایا اور وہاں ایک مسجد بنائی جو ’’مسجد قبا‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہی وہ مسجد ہے جس کاقرآن نے شاندار الفاظ میں تذکرہ کیا ہے:

"لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقۡوٰى مِنۡ اَوَّلِ يَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِيۡهِ‌ؕ فِيۡهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّتَطَهَّرُوۡا ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُطَّهِّرِيۡنَ‏۞"

’’یقیناًوہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔“


قُبا میں کچھ دن قیام کے بعد نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لے گئے، راستے میں مسجد بنو سالم میں نماز جمعہ ادا فرمائی۔ ہجرت کے بعد یہ تاریخ اسلام کی پہلی نماز جمعہ تھی۔ نماز سے پہلے پیغمبر انقلابﷺ نے یہ جامع خطبہ ارشاد فرمایا کہ:-

”سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ میں اسی کی حمد کہتا ہوں، اسی سے مدد مانگتا ہوں، اسی سے مغفرت طلب کرتا ہوں، اسی سے ہدایت چاہتا ہوں اور اسی پر ایمان لاتا ہوں۔ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لا شریک ہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور نور دے کر بھیجا ہے۔ اس دور میں جب کہ رسولوں کی آمد منقطع ہوچکی ہے۔ علم کی کمی ہے اور گمراہی عام ہے، زمانہ ختم ہونے کو ہے، قیامت قریب ہے اور اس کا مقرر وقت نزدیک آپہنچا ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے نافرمانی کی وہ بھٹک گیا، اس نے حد سے تجاوز کیا اور دور دراز کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔

میں تمہیں اللہ تعالی سے ڈرنے اور تقویٰ کی تلقین کرتا ہوں کہ۔۔۔۔

مزید فرمایا کہ:

”اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان بھی ہے، اللہ تعالی اپنی ہر بات میں سچے ہیں اور اس کا ہر وعدہ پورا ہوتا ہے۔ وعدہ کے خلاف ورزی نہیں کرتے، خود فرماتا ہے: نہ میری بات بدلتی ہے، نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔ پس اپنے تمام موجودہ آئندہ اور خفیہ و اعلانیہ کاموں میں تقویٰ پیش نظر رکھو کیونکہ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بڑا اجر عطا فرماتے ہیں اور وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ تقویٰ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے، اس کے عتاب سے اور اس کی سزا سے بچاتا ہے۔ تقویٰ سے قیامت کے دن چہرے منور ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی کتاب (قرآن) کا علم دیا ہے اور صحیح راستہ دکھا دیا ہے، تاکہ پتہ چل جائے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر بے شمار احسانات کئے ہیں۔ اس لئے تم بھی اچھی روش اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو اور جان لو کہ اللہ کی یاد دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھے گا اس کے معاملات کے لئے اللہ تعالیٰ خود کافی ہیں۔ ان تمام احکامات کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم لوگوں پر نافذ ہوتا ہے، مگر لوگ اس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتے، وہ سب کا مالک ہے اور اس کا مالک کوئی نہیں،  اللہ سب سے بڑا ہے۔“


تمام انصار چونکہ استقبال کیلئے جمع ہوئے تھے تو ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ نبی کریمﷺ ان کے گھر قیام فرمائیں۔ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ نبی کریمﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے:

’’حضورﷺ!  ہماری جان، ہمارا مال سب آپﷺ پر قربان۔‘‘


لوگوں کی دل شکنی سے بچنے کے لیے نبی کریمﷺ سب کےلئے دعائے خیر فرماتے اور سب سے یہی فرمایا کہ:

”اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے“


چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھ گئی جہاں آج مسجدِ نبویؐ ہے۔ اونٹنی جس جگہ بیٹھی وہ کھلا میدان تھا، جہاں لوگ اپنی کھجوریں دھوپ میں خشک کیا کرتے تھے۔ یہ میدان دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھا۔ نبی کریمﷺ  نے قیمت ادا کرکے جگہ خرید لی اور مسجد نبویؐ کی تعمیر کےلئے مخصوص کردی گئی۔ جس جگہ اونٹنی بیٹھی سب سے قریب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ پیغمبر انقلابﷺ کی میزبانی کا شرف آپؓ کے حصے میں آیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سات ماہ تک یہیں قیام فرمایا، اسی وقت سے سن ہجری کا آغاز ہوا۔

دارِ ابو ایوب کی انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے علماء کرام لکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی ولادت سے طویل عرصہ قبل ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے، جس کا نام تُبَّعْ ابن حَسَّان تھا، وہ زبور کا پیروکار تھا اور بہت نیک انسان تھا۔ ایک مرتبہ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں حاضر ہوا اور زیارت کے بعد کعبہ پر ریشمی غلاف چڑھایا۔ واپسی پر جب اس کا گزر اس جگہ سے ہوا، جہاں اب مدینہ طیبہ آباد ہے تو اس کے ساتھ سفر کرنے والے چار سو علماء نے خواہش ظاہر کی کہ ہم یہاں مستقل طور پر قیام کرنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق یہ جگہ ایک عظیم نبی احمدؐ کی جلوہ گاہ بنے گی، ہم یہاں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید ہمیں اس نبی کے دیدار اور خدمت کی سعادت حاصل ہوجائے۔ نیک دل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ انہیں اجازت دے دی، بلکہ سب کےلئے مکانات بھی تعمیر کر ادئیے اور رہائش کی جملہ ضروریات مہیا کردیں۔ پھر ایک مکان خصوصی طور پر بنوایا اور آنے والے نبی کے نام ایک خط لکھا جس میں اقرار کیا کہ میں آپ پر ایمان لاچکا ہوں اور اگر آپ کا ظہور میری زندگی میں ہوا تو آپ کا دست بازو بن کر رہوں گا  اس کے بعد یہ دونوں چیزیں، مکان اور خط۔ اس عالم کے حوالے کردیں جو ان میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار تھا اور کہا کہ فی الحال تم اس مکان میں رہو اور یہ خط سنبھال کر رکھو، اگر تمہاری زندگی میں اس نبی کا ظہور ہوگیا تو یہ دونوں چیزیں میری طرف سے ان کی خدمت میں پیش کر دینا، ورنہ اپنی اولاد کو یہی وصیت کر جانا، تاکہ یہ دونوں چیزیں نبیﷺ تک پہنچ جائیں۔ اس وصیت پر نسلاً بعد نسل عمل ہوتا رہا اور وہ چیزیں اس پر ہیز گار انسان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں۔ اسی طرح طویل عرصہ گزر گیا۔ اب اس مرد صالح کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس مکان کے محافظ و نگہبان تھے اور خط بھی انہی کے پاس محفوظ تھا۔ نبی کریمﷺ کی خدمت میں خط پیش کیا گیا تو آپﷺ نے اس خط کو سنا اور اس کے مندرجات سے بہت مسرور ہوئے۔

یہ پہلا اقدام تھا جس سے ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا عمل شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے اسلام ایک عالمگیر مذہب اور محسنِ اعظمﷺ ایک انسانیت ساز انقلابی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی