غارِ ثور میں جلوہ نمائی



غارِ ثور میں جلوہ نمائی

🪶وسیم اکرم حقانؔی




ایک سنسان و گم سم راہ پر چلتے سمے ایک فریفتہ و سچا عاشق اپنے محبوب، محسنِ انسانیت، پیغمبر انقلابﷺ کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتا رہا کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا حملہ کرکے نقصان نہ پہنچا دے۔ چلنے میں مبارک انگلیاں دُکھنے لگیں تو اس عاشق بامراد نے آپﷺ کو کندھوں پراُٹھا لیا اورغارتک لے گئے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ظلمت پرست مشرکینِ مکّہ کا ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا تو محسنِ اعظمﷺ کے تربیت یافتہ رجال کار نے بارگاہِ رسالت سے اجازت پاکر مکّہ شریف سے مدینۂ منوّرہ ہجرت کا عزم کیا۔ محسنِ اعظمﷺ نے ایک خاص منصوبہ کے تحت اپنی روانگی مدینہ سے پہلے مسلمانوں کو ایک ایک دو دو کرکے مکہ سے مدینہ بھیجنا شروع کیا، اس طرح مشرکین مکہ کی نگاہ سے اس ہجرت کو مخفی رکھنا بھی تھا کہ کسی کو علم بھی نہ ہو اور ہجرت کا عمل بھی مکمل کیا جائے مگر مکہ مکرمہ ایک چھوٹا سا شہر تھا، اس لیے چند ہی دنوں کے بعد یہ بات پھیل گئی کہ مسلمان اپنے گھر اور سامان کو چھوڑ کو یہاں سے جا رہے ہیں۔ کفار مکہ نے ان کو جانے سے روکا اور ان میں بعض کو ان کے مال و دولت کے بدلے کو جانے کی اجازت دی۔ کفار مکہ کی ستم ظرفی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کو یہ بھی قابلِ قبول نہ تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں چین کی زندگی بسر کریں۔ جب کفّار نے غلبۂِ اسلام سے خوف زدہ ہو کر حضور نبیِّ کریمﷺ کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا تو بحکمِ الٰہی آپﷺ نے بھی سیّدنا صدیقِ اکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ہمراہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔ آپﷺ نے اس کی تیاری کرلی مگر مشرکین نے اسی شب رسول اللہﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ کفّار کا سخت پہرا تھا، آپﷺ حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لِٹا کر سورہ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے اُن کفار کے سروں پر مٹی ڈال کر خیر و عافیت سے نکل گئے۔

جب کفارنے آپ کو صبح گھر میں نہ پایا اور دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سو رہے ہیں تو ان کو احساس ہوا کہ آپ رات ہی میں نکل گئے ہیں، جس کے بعد انھوں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کیا اور آپ کو قتل کرکے آپ کے سر کےلیے ایک سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا، اس انعام کے لالچ میں کتنے ہی لوگوں نے آپ کا تعاقب کیا، جن میں سراقہ کا واقعہ مشہور ہے، اس نے آپ کے قریب پہنچنے کی کئی بار کوشش کی، مگر ہر بار اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے، تب اس نے آپ سے امان مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کا پروانہ لکھوا کر عطا فرمایا۔

راستے میں سیّدنا صدیق اکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کبھی حضورﷺ کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتے کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا نقصان نہ پہنچا دے۔ چلنے میں مبارک انگلیاں دُکھنے لگیں تو انھوں نے آپﷺ کو کندھوں پراُٹھالیا اور غار تک لے گئے، پہلے خود داخل ہوئے تاکہ کوئی مُوذی جانور ہو تو مجھے تکلیف پہنچائے اور میرے آقاﷺ محفوظ رہیں۔ یہ عشق و محبت کا ضابطہ ہے کہ عشقِ رسول میں جان بھی قربان کرنی پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ غارِثور میں حضرت سیّدنا عبداللہ بن ابوبکر، حضرت سیّدتنا اسماء اورحضرت سیّدنا عامر بن فَہِیْرہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُم، خبریں پہنچانے، کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی خدمت بجا لاتے رہے۔ کفّار آپ کی تلاش میں غارِ ثَور پر بھی پہنچے مگر اللہ کریم نے محفوظ رکھا جس کا بیان سورۂ توبہ میں ہے:

"اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡہِ"

”یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انھیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان) اتارا۔“


غارِ ثور میں تین دن قیام کے بعد سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ تین دن تک آپ غار ثور میں رہے خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور  اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا لیکن نبیﷺ کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکر ؓ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی