طلع البدر علینا
حضور نبی کریمﷺ کےلیے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا فطری طور پر آسان نہ تھا کیونکہ ہر فرد اپنے گاؤں اور علاقے کے ساتھ ایک فطری وابستگی رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کیلئے وہاں رہنا چاہتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، اسلئے علماء فرماتے ہیں کہ بوقتِ خروج آپﷺ انتہائی افسردہ اور رنجیدہ تھے لیکن قدرت کا فیصلہ تھا اور فیصلہ بھی ایسا کہ اس پر قیامت تک کے حالات و واقعات کا ترتب ہونا تھا سو حضور نبی کریمﷺ نے ہجرت کرکے قیامت تک آنے والے نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ کسی مقصد کے حصول میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلا کام جو آپ کو کرنا ہے وہ جذبات کو پالیسی کے تابع بنانا ہے۔ پیغمبر انقلابﷺ کا مکہ میں رہنا ایک فطری جذبہ تھا جبکہ مدینہ منورہ ہجرت ایک انتظامی و سیاسی پالیسی تھی۔ آپﷺ نے اپنے جذبات سے عملاً دستبرداری ظاہر کی اور پالیسی پر عمل پیرا ہوئے۔ یہاں اہلیانِ مکہ کی بدنصیبی تو وہاں اہلیانِ مدینہ کی خوش نصیبی دیکھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے کہ پیکر اخلاص، مجسمہِ صدق حضور نبی کریمﷺ کو اپنے قریشیوں نے مکہ معظمہ سے نکالا تو آپﷺ کو مدینہ والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ علماء اور مورخین لکھتے ہیں کہ:
اپنے رفیق ہجرت کے ساتھ دوپہر کے وقت قبا کی بستی کے قریب پہنچے اور ایک ٹیلے کے پاس ٹھہرگئے۔ یہاں کھجور کے ایک درخت کا سایہ تھا۔ قبا کے لوگوں کو خبر ہوئی تو یہ حضورﷺ کے استقبال کے لئے بستی سے باہر آگئے اور”نعرہ تکبیر“ بلند کرکے آپﷺ کا خیر مقدم کیا۔ یہ انصار ہتھیار بند تھے اور محبت کے بے اختیار جذبہ سے حضور نبی کریمﷺ کے استقبال کےلیے ٹوٹ پڑتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ آپﷺ کو پہچانتے نہ تھے اس لئے اول اول حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے رہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھوپ کی وجہ سے آپﷺ کے اُوپر سایہ کرلیا، اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیغمبرِخدا کون ہیں؟ یہاں سے آپ قبیلہ بنی عمرو میں کلثوم ابن ہدم کے دولت کدہ پر تشریف لے گئے۔ قیام کے دوران یہاں آپ نے مسجد قبا کی تعمیر فرمائی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، بھی اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ قباء میں 4 دن قیام فرما کر جمعہ کی صبح یہاں سے روانہ ہوئے، راستہ میں جمعہ کا وقت آگیا اور آپ نے بنی سالم کے محلہ میں نماز جمعہ ادا فرمائی۔ نماز کے بعد جب چلنے لگے تو اس بستی کے لوگ آپ کے اُونٹ کی نکیل پکڑ کر کھڑے ہوگئے کہ آپ اسی محلہ میں قیام فرمائیں، ہماری تعداد بڑی ہے ہمارے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی کافی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ”میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ خدا کی طرف سے مامور ہے جہاں اسے حکم ہوگا وہاں خود بیٹھ جائے گی“۔ جب وہ بنی مالک ابن نجار کے محلہ میں پہنچی تو خود بخود وہاں بیٹھ گئی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آج مسجد نبوی میں منبر رسول بنا ہوا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ اس پر تشریف فرما تھے۔ وہ اونٹنی پھر اٹھی اور اِدھر اُدھر پھر کر اسی جگہ دوبارہ بیٹھ گئی، اب آپﷺ اس پر سے نیچے اتر آئے۔ بنی مالک ابن نجار سے آپ کی پُرانی رشتہ داری تھی، آپ کے پردادا ہاشم کی ایک شادی اس خاندان میں ہوئی تھی، آپﷺ کے دادا عبدالمطلب اسی خاندان میں پلے بڑھے تھے اور آپ کے والد عبداللہ نے آخری ایامِ زندگی اسی خاندان میں گذارے اور یہیں انتقال فرمایا۔ آپﷺ کی والدہ حضرت آمنہ آپ کو بچپن میں اسی خاندان سے ملانے لائی تھیں کہ مکہ واپس ہوتے ہوئے راستہ میں انتقال فرمایا۔ طبعی طور پر آپ کی خواہش اپنے پر دادا کی سسرال (اپنے دادا کی ننھیال) میں ٹھہرنے کی تھی لیکن اس کا انتخاب آپ نے خدا تعالیٰ کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا اور اونٹنی اسی غیبی اشارہ پر وہاں بیٹھی۔
مدینہ منورہ میں حضور نبی کریمﷺ کا استقبال جس شاہانہ انداز میں ہوا عرب میں اس سے پہلے کبھی کسی کا استقبال نہیں ہوا تھا، سارے شہر میں شور مچ رہا تھا، نبی اللہ آگئے، رسول اللہ تشریف لے آئے، ہر شخص کی زبان پر تھا، چھتوں پر عورتیں جمع تھیں اور یہ گیت گارہی تھیں:
طلع البدر علينا
من ثنيات الوداع
وجب الشكر علينا
ما دعى لله داع
أيها المبعوث فينا
جئت بالأمر المطاع
جئت شرفت المدينة
مرحبا يا خير داع
”ہم پر چودہویں کا چاند ثنیات الوداع کی طرف سے طلوع ہوا۔ ہم پہ شکر واجب ہے کہ بلانے والے نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا۔ آپﷺ کو مبعوث کیا گیا ہے اور آپ ایسی بات لائے ہیں جو قابلِ اطاعت ہے (یا جس کی اطاعت کی جائے گی)۔ آپﷺ نے مدینہ کو شرف بخشا، اے خیر کی دعوت دینے والے! خوش آمدید!“
خاندان بنی نجار جہاں آپﷺ ٹھہرے اس کی عورتیں اور لڑکیاں حضورﷺ کی زیارت کرنے حاضر ہوئیں۔ آپ نے انھیں دیکھا اور محبت میں کھڑے ہوگئے ان کے ہاتھوں میں دف تھا جسے وہ بجا بجا کر یہ شعر گارہی تھیں:
"نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ"
”ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں، کیا ہی اچھے پڑوسی ہیں ہمارے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم“
کتب احادیث میں یہ روایت کچھ یوں ہے کہ:
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ بِجَوَارٍ يَضْرِبْنَ بِدُفِّهِنَّ وَيَتَغَنَّيْنَ وَيَقُلْنَ: نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَعْلَمُ اللَّهُ إِنِّي لَأُحِبُّكُنَّ".
”نبی اکرمﷺ مدینہ کے ایک راستہ سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں:” نحن جوار من بني النجار يا حبذا محمد من جا“ ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں کیا ہی عمدہ پڑوسی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں“۔
بعض علماء نے درج ذیل اشعار بھی نقل کئے ہیں:
أشرق البدر علينا _ واختفت منه البدور
مثل حسنك ما رأينا _ أنت يا وجه السرور
أشرق البدر علينا __ واختفت منه البدور
أنت شمسٌ __أنت بدرٌ __أنت نورٌ فوق نور
أنت مصباح الثريا ___ أنت كوكبٌ منير
أنت أمينٌ وغالي ___ أنت مفتاح الصدور
أشرقت أنوار أحمد ____ واختفت منها البدور
يا مؤيد يا ممجد ___ أنت نورٌ فوق نور
حوضك الصافي المبرد ___ وردنا يوم النشور
يا حبيبي يا محمد ___يا وجه السرور
يا حبيبي يا محمد_____يا عروس الخافقين
يا مؤيد يا ممجد ____ يا إمام القبلتين
ممکن ہے کہ یہ اشعار بھی کچھ عورتیں گارہی ہوں گی۔