نحن الذین بایعوا محمدًا
آپﷺ تشریف لائے، کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ایک ضرب لگائی (تو ایک ٹکڑ ٹوٹ گیا) اور فرمایا: ”اللہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں، واللہ! میں اس وقت وہاں کے سُرخ محلوں کو دیکھ رہا ہوں“۔ پھر دوسری ضرب لگائی تو ایک دوسرا ٹکڑا کٹ گیا اور فرمایا: ”اللہ اکبر! مجھے فارس دیا گیا ہے۔ واللہ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں“۔ پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا: ”بسم اللہ! اللہ اکبر!“ تو باقی ماندہ چٹان بھی کٹ گئی، پھر فرمایا: ”اللہ اکبر! مجھے یمن کی کُنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صَنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں“۔
مہاجرین وانصار سب یکساں خندق کی کھدائی میں مصروف تھے، ٹھنڈی صبح میں کام شروع تھا۔ غربت و افلاس کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس غلام نہ تھے اور نہ مزدوروں سے کام کروانے کے لیے کوئی سرمایہ… غلام کیا؟ کیا نقد سرمایہ؟ ان کے پاس تو کھانے کو کچھ نہ تھا، سب بھوک سے نڈھال تھے لیکن اپنی دفاع و تحفظ کیلئے سب اپنی مدد آپ کے تحت کام میں مشغول تھے۔ بھوک سے نڈھال ہوچکے تھے، آپﷺ نے ان کی مشقت اور بھُوک دیکھ کر فرمایا:
"اللھم إن العیش عیش الآخرة
فاغفر للأنصار والمہاجرۃ"
”اے اللہ! یقینا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس انصار و مہاجرین کو بخش دے“۔
انصار و مہاجرین نے اس کے جواب میں کہا:
"نحن الذین بایعوا محمدًا
علی الجہاد ما بقینا أبداً"
”ہم وہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کےلیے جب تک کہ باقی رہیں محمدﷺ سے جہاد پر بیعت کی ہے“۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت نقل فرماتے ہیں کہ:
”میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے، یہاں تک کہ غبار نے آپﷺ کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔ آپﷺ کے بال بہت زیادہ تھے، میں نے (اسی حالت میں) آپﷺ کو عبد اللہ بن رواحہ کے رجزیہ کلمات کہتے ہوئے سنا، آپﷺ مٹی ڈھوتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے:-
اللھم لولا أنت ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا
فأنزلن سکینۃ علینا وثبت الأقدام إن لا قینا
إن الألی رغبوا علینا وإن أرادوا فتنۃ أبینا
”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے۔ پس ہم پر سکینت نازل فرما اور اگر ٹکراؤ ہو جائے تو ہمارے قدم ثابت رکھ۔ انھوں نے ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے، اگر انھوں نے کوئی فتنہ چاہا تو ہم ہرگز سر نہیں جھکائیں گے“۔
حضرت براء فرماتے ہیں کہ آپ آخری الفاظ کھینچ کر فرماتے تھے۔ ایک روایت میں آخری شعر اس طرح ہے:
إن الألی قـد بغوا علینا
وإن أرادوا فتنۃ أبینا
”یعنی انھوں نے ہم پر ظلم کیا ہے اور اگر وہ ہمیں فتنے میں ڈالنا چاہیں گے تو ہم ہرگز سرنگوں نہ ہوں گے“۔
یہ جنگ خندق کا موقع ہے، جب جنگ احد میں مسلمانوں کو عارضی اور تعمیری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کفار مکہ و مشرکین ظاہر طور پر فتحیاب ہوئے، تو ان لوگوں کے دلوں میں مزید اسلام کے خلاف لڑنے کی ہمت پیدا ہوئی اور اب اسلام و مسلمانوں کی مکمل بیخ کنی کیلئے پر تولنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ کام اب ہی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے شکست کی وجہ سے پست ہوچکے ہیں اور حضور نبی کریمﷺ کا حکم نہ ماننے پر خود ان کے پیغمبر بھی ان پر غصہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی بہتر موقع نہیں ہوسکتا۔ لہذا قریش، یہودی اور عرب کے دیگر بت پرست قبائل کے درمیان میں طے پایا کہ مل جل کر اسلام کو ختم کیا جائے۔ اس کےلیے ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور اس سلسلے میں پہلا معاہدہ قریش کے سردار ابوسفیان اور قبیلہ بنی نضیر کے درمیان میں ہوا۔ اس کے بعد بنی نضیر کے نمائندے نجد روانہ ہوئے اور وہاں کے مشرک قبائل 'غطفان' اور 'بنی سلیم' کو ایک سال تک خیبر کا محصول دے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔ اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں 4000 پیدل فوجی، 300 گھڑ سوار اور 1500 کے قریب شتر سوار (اونٹوں پر سوار) شامل تھے۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے 1000 سوار تھے۔ اس طرح دیگر قبائل کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی۔
اطلاع ملتے ہی رسول اللہﷺ نے ہائی کمان کی مجلسِ شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صحابہ کرام سے مشاورت کی۔ قائدین اہل شُوریٰ نے غور و خوض کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک تجویز متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ تجویز حضرت سلمان فارسیؓ نے ان لفظوں میں پیش کی تھی کہ:-
”اے اللہ کے رسولﷺ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے“۔
غرض خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوا اور صحابہ کرام نے انتہائی جوش و خروش سے کھدائی کا کام کیا۔ مسلمان ایک طرف انتہائی گرمجوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دومٹھی جَو لایا جاتا تھا اور ہیک دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ بھوکے ہوتے تھے اور یہ حلق کےلیے بد لذت ہوتا تھا اس سے مہک پھُوٹتی رہتی تھی۔ ابو طلحہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلائے تو رسول اللہﷺ نے اپنا شکم کھول کر دوپتھر دکھلائے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو حد شہرت سے بھی متجاوز ہوچکا ہے جس جو امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری شریف میں نقل کیا ہے کہ:-
”حضرت جابر بن عبد اللہؓ، نے نبیﷺ کے اندر سخت بھُوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جَو پیسا۔ پھر رسول اللہﷺ سے رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر گزارش کی کہ اپنے چند رُفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں، لیکن نبیﷺ نے تمام اہلِ خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی، ہمراہ لے کر چل پڑے اور سب لوگوں نے اسی ذرا سے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا، پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی۔ اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا، اس سے روٹی پکائی جاتی رہی“۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ کی بہن خندق کے پاس دو پسر کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھالیں گے۔ لیکن رسول اللہﷺ کے پاس سے گزریں تو آپﷺ نے ان سے وہ کھجور مانگ لی اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دی۔ پھر اہلِ خندق کو دعوت دی۔ اہل خندق اسے کھاتے گئے اور وہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے اور کھجور تھی کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گررہی تھی۔
یہ وہ موقع ہے جس پر اسلام و مسلمانوں کی حقیقی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف بھوک و افلاس سے نڈھال تو دوسری طرف اسلام کی سربلندی و تحفظ دین کے خاطر سب کی یکساں جدوجہد… ایک طرف منافقین کی چال بازیاں تو دوسری طرف مؤمنین کا اخلاص…