غزوۂ خندق



غزوۂ خندق

🪶وسیم اکرم حقانؔی



”جب ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں، چلو لوٹ چلو اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ کر نبیؐ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے) غیر محفوظ نہیں تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا“۔


مسلمان مدینہ منورہ کے گرد خندق کی کھدائی مکمل کر چکے اور دس ہزار سے زائد لشکر جو مدینہ منورہ پر چڑھائی کیلئے پر تول رہا تھا، کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کی سیاسی بصیرت اور صحابہ کرام کا جذبہِ حریت و اخلاص و وفا کے بدولت تین ہزار کا لشکر دس ہزار سے لڑنے پر آمادہ تھا۔ اس دوران بنو قریظہ (قبیلہِ یہود) جنھوں نے حضور نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ بیرونی حملے کی صورت میں ہم دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے، نے معاہدہ توڑ دیا۔ بنو نضیر کے ایک سردار حی ابن اخطب نے بنوقریظہ کے سردار کعب ابن اسد سے خفیہ ملاقات کی اور اسے تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کعب نے جواب دیا کہ:

”ہم نے محمد (ﷺ) کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے اور محمد (ﷺ) وعدوں کی پاسداری کرنے والے ایک سچے انسان ہیں، اسلئے میں محمد (ﷺ) کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو توڑ نہیں سکتا“۔

ابن اخطب حی نے کہا:

’’شاید تمہیں معلوم نہیں کہ اس مرتبہ اتنا بڑا لشکر لے آیا ہوں کہ اس کا مقابلہ ممکن نہیں اور ہم نے عہد کر رکھا ہے کہ جب تک محمد(ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا، ہم لڑائی سے ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے۔ یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے، اگر ہم کامیاب رہے تو عزت اور شان و شوکت کی زندگی گزاریں گے، اور اگر تمہارے انکار کی وجہ سے ناکام ہوگئے تو ہمیشہ محمد (ﷺ) کا غلام اور دست نگر رہنا پڑے گا، اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس دفعہ مسلمانوں کا قطعی طور پر خاتمہ ہوجائے گا تاہم تمہیں پھر بھی ہماری کامیابی میں شک ہے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ناکامی کی صورت میں واپس نہیں جاؤں گا، بلکہ تمہارے پاس آجاؤں گا اور معاہدہ توڑنے کی تمھیں جو بھی سزا محمد (ﷺ) کی طرف سے ملے گی، اس میں تمھارے ساتھ برابر کا شریک رہوں گا“۔

اس سے بڑھ کر وہ بچارا کیسے یقین دلاتا اسلئے تو یہ سن کر کعب کو یقین ہوگیا کہ اس دفعہ واقعی مسلمانوں کا صفایا ہوجائے گا، اس لئے وہ بے خوف و خطر ہوگیا۔ دیگر رؤسا بنی قریظہ کو بلا کر صورتحال بتائی اور کہا کہ ہمیں محمد (ﷺ) سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دینا چاہیئے۔ انھوں نے بھی تائید کی اور پھر سب کے سامنے معاہدے کی دستاویز کو پھاڑ دیا۔ حضور نبی کریمﷺ اس خبر کی حقیقت معلوم کرنے کےلئے حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادہ کو بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ:

’’اگر معاہدہ توڑنے کی خبر سچ ہوئی تو اس خبر کو واپس آکر مبہم الفاظ میں بیان کرنا۔ تاکہ فوج میں بد دلی نہ پھیلے اور اگر یہ افواہ غلط ثابت ہوئی تو اعلانیہ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

صحابہ کرامؓ واپس دربارِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور بنوقریظہ کی عہد شکنی کی تصدیق کردی، جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

’’ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘


یہاں لشکر اسلام میں منافقین کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی مہم شروع کردی اور مسلمانوں سے کہا:

”محمد (ﷺ) نے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ ہم لوگ قیصر و کسریٰ کو فتح کریں گے ان کے خزانے ہمیں ملیں گے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ ہم لوگ لاچار، کمزور اور مجبور ہوکر رہ گئے ہیں“۔


اس سے بڑھ کر آزمائش کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کے صفوں کے اندر غدار سر اٹھانے لگے اور آپ کے ساتھیوں کو بدظن کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ صحابہ کرام کے اخلاص و ہمت کو پرکھا جا رہا تھا اور منافقین کی منافقانہ روش کو واضح کرنے کی خدائی پالیسی پر عمل جاری تھا اور یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل آیت نے کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ جھنجھوڑ دئیے گئے اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکہ فریب کاہی وعدہ کیا تھا“۔


لشکرِ اسلامی میں موجود منافقین کا راز  موسم کی سختی، رسد (راشن) کی قلت، راتوں کی بے خوابی اور دشمن کی بڑی تعداد سے فاش کردیا اور منافقین نے مختلف حیلے بہانے شروع کردیئے، کہنے گے:

’’یارسول اللہﷺ! ہمارے گھر بالکل خالی ہیں اور گھر کی دیواریں چھوٹی ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں اور دشمن کی زد میں ہیں، ہماری عورتیں اور بچے غیر محفوظ ہیں، اسلئے ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم واپس جا کر ان کی حفاظت کرسکیں۔‘‘


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"وَاِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ يٰٓـاَهۡلَ يَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمۡ فَارۡجِعُوۡا‌ ۚ وَيَسۡتَاۡذِنُ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمُ النَّبِىَّ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُيُوۡتَنَا عَوۡرَة‌ٌ  ‌ۛؕ وَمَا هِىَ بِعَوۡرَةٍ  ۛۚ اِنۡ يُّرِيۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا۞"

’’جب ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں، چلو لوٹ چلو اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ کر نبیؐ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے) غیر محفوظ نہیں تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا۔‘‘


جبکہ مومنوں کے دل اخلاص، یقین، ایمان اور جان نثاری کے جذبہ سے لبریز تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ  ۚ وَمَا زَادَهُمۡ اِلَّا اِيۡمَانًـا وَّتَسۡلِيۡمًا۞"

’’اور ایمان داروں نے جب لشکر کو دیکھا تو (بے ساختہ) کہہ اُٹھے! کہ اس ہی کا وعدہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے اور اسکے رسول نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور رسول نے سچ فرمایا اور اس سے ان کے ایمان میں فرماں برداری کا اور اضافہ ہوگیا‘‘۔


خندق کے اس پار بھی آسانی و راحت نہ تھی بلکہ مشرکین کی دس ہزار فوج سردی میں ٹھٹھر رہی تھی اور جب غذا اور مویشیوں کی خوراک کا مسئلہ ہوا تو فوج کا سپہ سالار بغاوت کے خطرے سے پریشان ہوگیا۔ دس ہزار فوج جمع کرنے والے قریش، یہودی اور ان کے اتحادی قبائل بے بسی کے عالم میں خندق کے پار مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ کفار مکہ کے جرنیلوں نے اپنی اپنی مقررہ باری پر حتی المقدور کوشش کرنے کے باوجود خندق عبور کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔

ایک دن شدید جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے پورے دن یہ سلسلہ جاری رہا اور مسلمان ہر جانب سے مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس دوران نماز ظہر، عصر اور مغرب قضا ہوئیں جنہیں بعد میں اداکیا گیا۔ مدینہ منورہ کے دفاع میں یہودی قبیلہ بنوقریظہ کی غداری سے جب خطرہ ہوا تو حضور نبی کریمﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو تین سو افراد کے ہمراہ مدینے کے مکانات اور گھروں کے دفاع کےلئے روانہ فرمایا جہاں خواتین اور بچے قیام پذیر تھے۔ اگر چہ محاصرے کی طوالت میں مسلمان بھی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے لیکن کفار میں ہمت و حوصلہ نہیں رہا تھا۔ اسی دوران ایک نو مسلم نعیم بن مسعود نے خاموشی سے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کفار میں پھوٹ ڈالنے کی اجازت طلب کی۔ جن کے ایمان سے ابھی تک کفار آگاہ نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے یہود کے باغی قبیلے بنو قریظہ اور قریش مکہ کے لشکر میں موجود بنوغطفان میں ایسی پھوٹ ڈالی کہ وہ ایک دوسرے سے متنفر اور بیزار ہوگئے۔ کفار کا لشکر حوصلہ ہار رہا تھا، ان کی رسد ختم ہورہی تھی کہ قریش مکہ کو حج کے انتظامات کی فکر ہوگئی۔ موسم کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور سردی بڑھ گئی۔ سپاہی بیمار و ہلاک ہو رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ ہم کس طرح واپس ہوں گے؟ رسول اللہﷺ ظہر و عصر کے دوران مسلسل دعا میں مصروف رہے:

’’اے اللہ! آپ قرآن کریم کے نازل فرمانے والے ہیں اور جلد حساب کرنے والے ہیں۔ ان قبیلوں کو شکست دیجئے۔ اے اللہ! ان کو شکست دیجئے اور ان کو لڑکھڑا دیجئے اور ان پر ہماری مدد فرمائیے‘‘۔


نبی کریمﷺ کی دعا قبول ہوئی اور  رات کو اتنی تیز آندھی آئی کہ خیمے ہوا میں غباروں کی طرح اُڑنے لگے، لشکر میں روشن الاؤ بجھ گیا، شدید بارش سے سردی بڑھ گئی۔ بارش، طوفان اور بادلوں کی گرج میں کفار کی مایوس فوج خوف و ہراس کا شکار ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آندھی، بارش اور فرشتوں کی جماعت سے مجاہدین کی مدد فرمائی۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ جَآءَتۡكُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا وَّجُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًا۞"

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہوئی جب تمہارے پاس لشکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسا لشکر بھیجا جو تمھیں نظر نہیں آتا تھا اور اللہ تعالیٰ دیکھ رہے تھے جو تم کررہے تھے“۔


حضرت حُذیفہؓ جب رسول اللہﷺ کے حکم سے کفار کے لشکر میں حالات معلوم کرنے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اُکھاڑ دئیے، دیگیں الٹ دیں، گھوڑے بدمست دوڑ رہے تھے اور سنگریزوں کی آوازیں آرہی تھیں جو گھوڑوں کو لگ رہے تھے۔ حضرت حُذیفہؓ فرماتے ہیں کہ:

’’جب میں واپس آرہا تھا تو راستہ میں بیس سوار ملے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم اپنے آقا کو خبر دے دو کہ حق تعالیٰ نے کفار کے لشکر پر حضور نبی کریمﷺ  کو نجات دی۔ میں نبی کریمﷺ  کے پاس پہنچا تو رسول اللہﷺ  نے بھی نماز مکمل کرکے تبسم فرما کر مسلمانوں کی فتح کا اعلان فرمایا۔“

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی