فتح مکہ کا پیش خیمہ _ صلح حدیبیہ
![]() |
🪶وسیم اکرم حقانؔی |
”مسلمان اس سال بغیر عمرہ کے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں، لیکن تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں ہو گی اور کسی قسم کا اسلحہ ساتھ لانے کے مجاز بھی نہیں ہوں گے، سوائے تلواروں کے اور وہ بھی نیام کے اندر ہوں گی۔ دس سال کے لیے جنگ بندی ہو گی، کوئی فریق دوسرے پر تلوار نہیں اٹھائے گا۔ جو شخص مسلمانوں میں سے مدینہ سے مکہ آئے گا اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا، اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مسلمان اس کو مکہ واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے۔ متحدہ قبائل کو اختیار ہو گا کہ جس کے معادہ اور صلح میں شریک ہونا چاہیں شریک ہو جائیں“۔
یہ وہ سخت اور تلخ شرائط تھیں جو ناقابلِ تسلیم ہونے کے باوجود بھی محسنِ اعظم، پیغمبر انقلاب حضور نبی کریمﷺ کی اتباع و اطاعت میں ان کے تربیت یافتہ رفقاء نے تسلیم کئے اور یہی وہ موقع تھا جس میں پیغمبر انقلابﷺ کی قائدانہ صلاحیت، مدبرانہ حکمت، شعوری سیاست اور امورِ سلطنت میں بالغ نظری کھل کر انسانیت کے سامنے آئی جس نے تمام سلاطین عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور اس معاہدے کے نتیجے میں اسلام عرب اور قرب و جوار میں انتہائی برق رفتاری سے پھیل گیا۔ حالانکہ تمام صحابہ کرام بالخصوص فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس معاہدہ کے جانبدارانہ پہلو پر شدید نالاں تھے اور سخت الفاظ میں اظہار بھی کر چکے لیکن یہ قدرت کا فیصلہ تھا اور اس کے پشت پر پوری اسلامی تاریخ و تسلسل کا بوجھ تھا اسلئے حضور نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو تسلی دی اور ان شرائط کو تسلیم کرنے میں رب العالمین کے بے انتہا حکمتوں اور مصلحتوں کی نشاندہی کی۔
یہ چھ ہجری کا واقعہ ہے اور مسلمانوں کو مکہ معظمہ چھوڑے ہوئے چھ سال کا طویل عرصہ گذر چکا تھا، کیونکہ فراق کا ایک لمحہ صدیوں جبکہ صدیوں کا وصال ایک لمحہ کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ کی گلیوں اور بیت اللہ کی یاد صحابہ کرام کے دل و دماغ پر حاوی ہوچکی اور وہ مدینہ رہتے ہوئے بھی حرم کی پرنور فضاؤں کو یاد کرتے تھے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اظہار بھی فرماتے تھے۔ ان پرانی یادوں کو تازہ کرنے اور بیت اللہ کے شرف زیارت سے مشرف ہونے کا شوق ہر آن اُن کے قلوب میں مچلتا تھا۔ دوسری طرف مکہ کے حالات اور مشرکین کا اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھ کر مسلمانوں پر شدید غم و غصہ اس راہِ شوق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظر بہت پسند آیا اور وہ اپنے محبوب پیغمبر حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کی حاضری مکہ کےلئے اسباب مہیا کرنے لگے اور خود رسول اللہﷺ نے خواب دیکھا کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور عمرہ کیا پھر بعض صحابہؓ نے سر کا حلق کروایا اور بعض نے سر منڈوایا۔ نبی کا خواب چونکہ وحی کے درجے میں ہوتا ہے اس لیے یہ خواب گویا اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ آپﷺ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ جائیں اور عمرہ کی ادائیگی کریں۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کے دلوں میں بیت اللہ اور محبت الٰہیہ کی چنگاری بھڑک اٹھی اور وہ خانہ خدا کی زیارت کےلیے بھرپور تیاری میں مصروف ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ چودہ سو افراد کے قافلہ کے ساتھ مکہ کےلیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں رسول اللہﷺ کا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے ضروری ہتھیاروں کے علاوہ کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لائے بلکہ خالصةً عمرہ ادا کرنے کیلئے روانہ ہوئے۔ قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر عمرہ کا احرام باندھا اور جانوروں کے گلے میں قلادہ (نشانی) ڈالا۔
مشرکین مکہ کو یہ خبر موصول ہوئی تو ان کےلیے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی کہ مسلماں یہاں آکر عمرہ ادا کریں۔ انھوں نے خالد بن ولید جو اس وقت مسلمان نہ تھے، کو دو سو افراد کی مختصر جماعت کے ساتھ روانہ کیا اور ان کو ہدایت دی کہ کسی صورت میں بھی مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہونے دینا۔ مسلمان اس وقت مکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلے پر ایک کنواں ہے جس کا نام حدیبیہ ہے، اسی کنویں کے نام سے وہ گاؤں منسوب ہے، میں پڑاؤ ڈال چکے تھے اور ان کو کفار کے عزائم کا ہرگز علم نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان صرف عمرہ کی ادائیگی کےلیے آئے تھے ان کا جنگ وغیرہ کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی خالد بن ولید کے لشکر نے حدیبیہ کے مقام پر آپﷺ کے قافلے کو روک لیا اور مزید آگے بڑھنے سے منع کیا۔ معروضی صورتحال کے پیش نظر نبی کریمﷺ نے حضرت خراش بن امیہ خزاعیؓ کو ایک اونٹ پر سوار کر کے بطور قاصد اہل مکہ کی طرف یہ کہلا کر بھیجا کہ ہمارے اس سفر کا مقصد صرف بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کی ادائیگی ہے، ہم آپ سے نہ جنگ کرنے آئے ہیں اور نہ ہی کوئی اسلحہ ساتھ لائے ہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے حرم کے دروازے کھول دیں اور ہم سے کوئی مزاحمت نہ کریں۔ اہل مکہ غصے سے پاگل ہوچکے تھے اور انھوں نے تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قاصد کے اونٹ کو قتل کردیا اور پھر حضرت خراشؓ کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن وہ ان سے بچ بچاو کر کے نکل آئے اور واپس آکر نبی کریمﷺ کو ساری صورتحال سے مطلع کیا۔ مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ اس شدید مزاحمتی رویے سے آپﷺ سمجھ گئے کہ اب ان کے ساتھ ٹھوس انداز میں بات کرنے اور ان کو پوری طرح قائل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو بطور سفیر اہل مکہ سے بات چیت کرنے اور امن و امان کی ضمانت دینے کےلیے جانے کو کہا۔ حضرت عمرؓ نے منشاء نبوت کی تکمیل کےلیے یہ کہہ کر جانے سے معذرت کر لی کہ یہ مصالحت کا موقع ہے جب کہ میرا تند و تیز مزاج احتیاط کے باوجود مزاحمت کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس موقع پر میرے منہ سے انجانے میں نکلا ہوا لفظ مصالحت کے عمل کو متاثر نہ کر دے جس سے نبی کریمﷺ کو تکلیف پہنچے۔ سبحان اللہ!
فاروقِ اعظم کی اطاعت و فرمانبرداری کا اندازہ لگائیں، یہ ان لوگوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو فاروق اعظم کی فرمانبرداری پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنا مزاج بخوبی معلوم تھا اور عین ممکن تھا کہ وہ الٹی سیدھی بات کرتے اور فاروق اعظم تلوار کی دھار سے ان کی اکڑ ختم کر دیتے۔ پس اسی خطرے کے پیشِ نظر جانے سے معذرت کی جس کو پیغمبر انقلابﷺ سمجھ گئے اور ان کا عذر معقول سمجھا۔ اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو قریش مکہ سے گفتگو و مذاکرات کے لیے روانہ کیا۔ حضرت عثمانؓ، ابان بن سعیدؓ کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے اور سرداران قریش سے بات چیت کی۔ انھوں نے عمرہ کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا، البتہ حضرت عثمانؓ کو ذاتی حیثیت سے تنہا طواف کرنے کی اجازت دے دی۔ عشق و محبت کا جان فزا منظر دیکھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے کہ کئی سالوں سے بیت اللہ کی زیارت سے محروم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو طواف کی اجازت ملتی ہے جبکہ دوسری طرف ان کا محبوب، وجہِ تخلیق دو عالمﷺ حدیبیہ کے مقام پر روکے گئے ہیں۔ دنیا نے اس منظر کو محفوظ کر لیا اور تاریخ کے اوراق پر داستان عشق و وفا کے نام سے یہ تاریخی دن اور مقام رقم ہوا کہ قریش مکہ کی جانب سے حضرت عثمانؓ کو انفرادی طور پر عمرہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تو انھوں نے دوٹوک جواب دیا کہ ادھر میرے محبوبﷺ حرم کے در و دیوار دیکھنے کو ترستے رہیں اور ادھر میں آپﷺ کے بغیر اطمینان سے طواف کرتا پھروں، ایسا ممکن نہیں۔ دوسری جانب حدیبیہ کے مقام پر بعض صحابہ کرامؓ نے کہہ دیا کہ حضرت عثمانؓ تو مزے سے طواف کر رہے ہوں گے اور ہم ادھر بیت اللہ کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب ہیں تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمانؓ پر بے پناہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ :
”عثمانؓ ہرگز میرے بغیر طواف نہیں کر سکتا“۔
شاعر کی زبان میں یہ داستان سمجھ لیجئے کہ:
دونوں جانب سے اشارے ہو گئے
تم ہمارے، ہم تمہارے ہو گئے