صلح حدیبیہ _ بیعت رضوان
”یقیناً اللہ تعالیٰ ان مؤمنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم (رسول اللہﷺ) سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا۔ اس لیے اس نے ان پر سکینت اتار دی، اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرما دی“۔
یہ اس تاریخی بیعت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں جس میں پیغمبر انقلاب، محسنِ اعظمﷺ کے مخلص اور جانثار رفقاء، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایمان و یقین کی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کرکے اپنے کامل ایمان کا ثبوت پیش کیا۔ اس بیعت کو بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے جو پوری انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد بیعت ہے۔ ایک طرف مسلمان کی چودہ سو تعداد جس میں ہر فرد کے ساتھ صرف ایک تلوار تھی اور جنگی لباس سے بھی محروم، احرام کی چادریں باندھے ہوئے، اپنے جنگی مستقر یعنی ہیڈکوارٹر مدینہ منورہ سے بھی ڈھائی سو میل دوری پر، دشمن کے عین مرکز کے قریب ان لوگوں کے خلاف لڑنے پر بیعت کر رہے ہیں جو جنگی اسباب و وسائل سے مالامال تھے اور ہر قسم کی کمک پہنچنے کا راستہ ہموار تھا۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی وہ ایک دفعہ نہیں، کئی کئی بار بیعت کرتے رہے جس میں شرکت کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سندِ خوشنودی جاری فرما رہے ہیں۔
حضرت عثمانؓ جو نبی کریمﷺ کے ایلچی بن کر مذکرات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور وہاں انھوں نے عمرہ کی اجازت بھی دی لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، رسول اللہﷺ کے بغیر طواف کرنے پر قطعاً آمادہ نہ ہوئے اور قریش نے حضرت عثمانؓ کو روک لیا۔ ادھر حدیبیہ میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر مسلمانوں پر آسمانی بجلی بن کر گری، کیونکہ ایک طرف تو وہ پکے سچے مسلمان جبکہ دوسری طرف وہ ایک ایلچی و سفیر بن کر گئے تھے جن کے ساتھ حسن سلوک تو ہر متمدن معاشرے کا لازمی جزو ہے اور یہ سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ یہ سن کر انتہائی رنجیدہ ہوئے اور آپﷺ نے طبلِ جنگ بجاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
”ہم عثمانؓ کا بدلہ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے“۔
اس وقت آپﷺ کیکر کے درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے، آپﷺ نے اپنے ساتھ موجود چودہ سو صحابہ کرامؓ سے قصاص عثمانؓ پر بیعت لی۔ سب سے پہلے بیعت کرنے والے خوش قسمت صحابی حضرت ابو سنانؓ تھے۔ صحابہ کرام کا اخلاص اور محبت کا جذبہ ملاحظہ فرمائیں کہ بعض نے کئی بار بیعت کر کے حرمت عثمانؓ کےلیے جان قربان کرنے کا عزم مصمم ظاہر کیا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کے متعلق آتا ہے کہ انھوں نے تین مرتبہ بیعت کی۔ جب سب صحابہ کرامؓ بیعت کر چکے تو آپﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھا اور ارشاد فرمایا:
”یہ بیعت عثمانؓ کی جانب سے ہے“۔
صحابہ کرام کی یہ دینی حمیت و غیرت اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ خود اس میں مداخلت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُبَايِعُوۡنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوۡنَ اللّٰهَ ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَيۡدِيۡهِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنۡكُثُ عَلٰى نَفۡسِهٖۚ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيۡهُ اللّٰهَ فَسَيُؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا۞
”اے نبیﷺ! جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہو گا، اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کوبڑا اجر عطا فرمائے گا“۔
سیر کے کتابوں میں علماء اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ تحقیق حال کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر محض افواہ تھی اور حضرت عثمانؓ بخیر و عافیت ہیں تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی بیعت سے متعلق سن کر اہل مکہ مرعوب ہو گئے اور ان کے ایمانی جذبے کو دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہوئے۔ صلح کا قصہ یہ ہوا کہ قبیلہ بنوخزاعہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا، لیکن روز اول سے مسلمانوں کا حلیف اور خیرخواہ تھا اور اس کا سردار بدیل بن ورقاء جو انتہائی معتدل آدمی تھا، نے آپﷺ کو آکر اطلاع دی کہ قریش نے مکہ میں آپ کو داخل ہونے سے روکنے کےلیے حدیبیہ کے اطراف میں پانی کے چشموں پر بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور ان کا یہاں پر طویل قیام کا ارادہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
”ہم یہاں کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں، البتہ اگر قریش کی خواہش ہو تو میں ان سے صلح کی ایک مدت مقرر کر لیتا ہوں، اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو میں ہر حال میں ان سے لڑائی کروں گا“
بدیل نے آکر قریش کو نبی کریمﷺ کے عزائم سے مطلع کیا اور صلح کی اس پیشکش کو سراہتے ہوئے انھیں اس پر آمادہ کرنا چاہا، لیکن انھوں نے بدیل کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے بھی بدیل کی بات کی تائید کرتے ہوئے قریش کو صلح کےلیے تیار کرنے کی کوشش کی اور ان سے محبت بھرے لہجے میں کہا:
”اگر تم مجھے اپنے باپ کے درجے میں مانتے ہو تو مجھے نبی کریمﷺ سے بات کرنے کی اجازت دے دو“۔
عروہ کی طرف سے شدید اصرار اور اس قدر منت و لجاجت دیکھ کر قریش نے بات چیت کی اجازت دے دی۔
عُروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور بات چیت شروع کی۔ اثنائے گفتگو میں انھوں نے کہہ دیا کہ اگر لڑائی کی نوبت آئی اور آپ مغلوب ہوگئے تو یقین کیجیے کہ یہ سب لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ یہ سن کر آپے سے باہر ہو گئے اور عروہ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے:
”کیا ہم آپﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“
دورانِ گفتگو عروہ بار بار آپﷺ کی داڑھی کو پکڑتے اور سوال کرتے جس پر عروہ کے بھتیجے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اس مجلس میں موجود تھے، چچا کا یہ غیرمہذب رویہ ان سے دیکھا نہ گیا اور حضورﷺ کی محبت میں اس رشتہ داری کا لحاظ کیے بغیر عروہ سے کہنے لگے کہ:
”اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کی داڑھی سے ہٹاوٴ، ایک مشرک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آپﷺ کی داڑھی کو ہاتھ لگائے“۔
بہرحال عروہ نے صحابہ کرام کی عقیدت و محبت کا بخوبی جائزہ لیا اور قریش کو کہا کہ:
”مجھے قیصر کسری، نجاشی اور بہت سے سلاطین کے دربار میں جانے کا موقع ملا لیکن کسی بادشاہ کے دربانوں کا اپنے بادشاہ سے ایسا بے لوث رشتہ اور پرخلوص تعلق نہیں دیکھا جیسا حضرت محمدﷺ کے ساتھیوں کا آپﷺ کے ساتھ دیکھا، وہ اپنے نبی کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، لہٰذا عافیت اسی میں ہے ان سے مصالحت کر لی جائے“۔
بہرحال اہلِ مکہ صلح پر آمادہ ہوئے اور ان تلخ شرائط پر صلح کا عمل مکمل ہوا جس کو ہم گزشتہ کالم میں لکھ چکے۔
نبی کریمﷺ نے مکہ واپسی کےلیے صحابہ کرام ؓ کو جانور ذبح کرنے، حلق کروانے اور احرام اتارنے کا حکم دیا، تو ان کےلیے یہ کام کسی سنگ گراں کو ہٹانے کے مترادف تھا، کہ نبی کریمﷺ نے تین بار جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا لیکن ایک شخص بھی نہ اٹھا۔ نبی کریمﷺ نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہؓ سے بطور شکایت اس کا ذکر کیا تو انھوں نے صحابہ کرامؓ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ:
”وہ اس وقت سخت صدمے سے نڈھال ہیں، ان کی جانب سے یہ معاملہ طبعی اور فطری ہے، اس کی وجہ سے آپ ان پر ناراض نہ ہوں“۔
پھر آپﷺ کو اس قضیے کے حل کےلیے ایک تجویز پیش کی کہ آپ خود ان کے سامنے جانور ذبح کر کے سر منڈوائیں تو وہ بھی تعمیل حکم کےلیے تیار ہو جائیں گے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے ایسا ہی کیا تو سب صحابہ کرامؓ نے آپ کو دیکھ کر قربانی شروع کر دی۔ اس صلح نامے کا ایجنڈا بظاہر مسلمانوں کے مصالح اور مفاد عامہ کے بالکل برعکس تھا لیکن اس کے بعد رونما ہونے والے فوائد سے نبی کریمﷺ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے پیش نظر کس قدر عظیم مقاصد تھے۔ جنگ بندی کی وجہ سے دعوت کا دائرہ وسیع ہوا، عوام سے نکل کر خواص تک اسلام کا پیغام پہنچ گیا، سلاطین کو دعوتی خطوط تحریر کیے اور کچھ عرصہ بعد فتح مبین کا نظارہ سب نے دیکھ لیا۔