مولانا ابوالکلام آزاد ایک جامع شخصیت
🪶ڈاکٹر رضوان اللہ جان شاہی |
مولانا ابوالکلام آزاد بیک وقت کئی شخصیات کا مجموعہ ہیں۔ آزاد بیک وقت عالم بھی، محقق بھی، سیاست دان بھی، فلسفی بھی، ادیب بھی، صوفی بھی اور ساتھ ساتھ عاشق و محب بھی ہیں۔ مولانا کی تحریر ان سات منابع سے نکل کر مکتب علم و دانش میں قرار پاتی ہے، لہذا آزاد کی فکر ان تشخصات کا مَرکَب ہے۔ آزاد کی زندگی میں شاید یہ سب سے کٹھن مرحلہ تھا کہ آپ "شخصیات اور تشخصات" کے جامع تھے۔ عام طور یہ واقع ہوا ہے کہ ہر فرد اپنی ایک شخصیت کے ساتھ نمودار ہوکر علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر فرد اپنے مخصوص پہلو کےلیے وقف رہا لیکن آزاد کے حوالے سے یہ بات بالکل بر عکس ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ انسان کی تعریف اور پہچان میں سب سے بڑا حائل "تشخص" ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو ایک تشخص کے مالک ہوتے ہیں لیکن بعض تو بے شمار تشخصات لئے پھرتے ہیں۔ جس کی تعریف، ادراک اور پہچان میں اکثر اہل علم غلط فہمی کے شکار بن جاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام لوگ باقی امثال کی طرح اس کو بھی ایک زاویہ سے دیکھنے کی غلطی کرتے ہیں، حالانکہ وہ زاویہ کی بجائے "جہات" پر حاوی رہتے ہیں۔ یہی بات آزاد کے بارے میں بھی پیش آئی۔
آزاد وہ پہلا شخص ہیں جس نے سب سے پہلے اسلامی تعلیمات میں "عقیدہ توحید" کو ایک نئے انداز میں پیش کرکے یہودی اور مسیحی انداز فکر سے جدا کردیا، کہ یہودی خدا کے بارے میں وہ نفسیات رکتھے ہیں جو نفسیات بیوی اپنے خاوند کے بارے میں رکھتی ہے۔ انھوں نے عقیدہ توحید کو "قہریت" کے ضمن میں لیا۔ مسیحی عقیدہ توحید میں ان نفسیات کا اضافہ کیا گیا جو ایک باپ اپنی اولاد کے بارے میں رکھتا ہے۔ انھوں نے توحید کو "رحمیت" کے غلبہ کے ضمن میں لیا۔ لیکن آزاد نے فرمایا کہ "قرآن کا عقیدہ توحید میں وصف "حسن" و "جمال" کا غلبہ ہے۔ لہذا مسلمان توحید کو عدل و احسان اور حسن و جمال کی نفسیات کے ساتھ لیتے ہیں۔ مولانا آزاد نے "قرآن فہمی" کےلیے روایت کے ساتھ ساتھ "علم لغت" اور عربی زبان اور ادب سے استفادہ پر زور دیا اور اس کے ذریعے قرآن مجید کے سمجھ بوجھ میں نئے نئے گوشے سامنے آسکتے ہیں۔
آزاد نے افلاطون کے برعکس "نظریہ ماحولیات" پیش کیا، جس میں آزاد کے نزدیک "ماحول" انسانی فکر کی تخلیق ہے۔ یہ نہیں کہ ماحول انسانی فکر کو تشکیل دیتا ہے جو افلاطون کا نظریہ تھا۔
سب سے پہلے قومی وحدت کےلیے آزاد نے "قومی دماغ" کا تصور پیش کیا، اور ساتھ ساتھ سیاسیات میں سب پہلے آزاد نے "فرد" اور "جماعت" کے دماغ میں فرق کیا اور واضح کیا کہ فرد کی طرح "جماعت" کا بھی اپنا جدا دماغ ہوتا ہے۔ ہر فرد کسی بھی جماعت میں اپنے دماغ کی بجائے "جماعت" کے دماغ پر چلتا ہے۔ آزاد کے نزدیک جماعت لوگوں کے ہجوم اور اجتماع سے نہیں بلکہ افراد کی "فکری وحدت" اور "فکری ہم آہنگی" سے عبارت ہے۔ آزاد نے سیاسیات کی بنیادیں نفرت اور ردعمل کی بجائے "حقائق اور سچائی" پر استوار کرنے کی سعی فرمائی۔
آزاد ہمیشہ کےلیے "فکر اور زندگی" کو قیودات اور تحدیدات سے آزاد کرانے کی تگ و دَو کرتے رہے، اور مسلم جامعہ کے مستقبل ڈھانچہ کےلیے "اسلام کے اصل اخوت و بھائی چارے" پر زور دیا۔ آزاد کے نزدیک بڑی قوم تنگ خیالی سے نہیں بلکہ وسعت نظری سے بنتی ہے۔ مولانا آزاد کے نزدیک اسلام کا تصور سیاست ذات اور ماہیت کے حوالے سے "جمہوری اور انسانی" ہے۔
اس کے علاوہ مولانا آزاد نے "قانون بقائے انفع" کا تصور پیش کیا اور زندگی کے ہر پہلو کےلیے ضروری قرار دیا، اور یہ قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ "فرد اور جماعت" اور انفراد و اجتماع دونوں پر لاگو ہے۔ یہ تصور بنیادی طور "ابن خلدون" کے نظریہ اجتماع و ریاست" کے برعکس ہے جس میں انھوں نے کسی بھی ریاست اور حکومت کی "فطری عمر" کو متعین کیا تھا۔ آزاد کے نزدیک فرد اور جماعت کی "بقاء" فطری عمر سے زیادہ "قانون بقائے انفع" پر انحصار کر لیتی ہے۔
مولانا آزاد نے تمام تر نزاعات اور اختلاف کا کلیدی عنصر انسان کا "دماغ" نہیں بلکہ انسان کا "جیب" قرار دیا، اور مذہبیات میں ایک وحدت سے انحراف کو پیروان مذاہب کی ستم ظریفی قرار دی ہے۔ مولانا آزاد کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں:
”علم اور مذہب کی جتنی نزاع ہے فی الحقیقت علم اور مذہب کی نہیں، مدعیانِ علم کی خامکاریوں اور مدعیانِ مذہب کی ظاہر پرستیوں اور قواعد سازیوں کی ہے۔ حقیقی علم اور حقیقی مذہب اگر چہ چلتے ہیں الگ الگ راستوں سے، مگر بالآخر پہنچ جاتے ہیں ایک ہی منزل پر۔“
کسی نے مولانا آزاد سے پوچھا کہ حضرت کبھی یہ عشق وشق فرمایا ہے؟ آزاد نے اس شعر سے جواب دیا: ؏
اندازِ جنوں کونسا ہم میں نہیں مجنوں!
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے!