![]() |
ڈاکٹر رضوان اللہ جانشاہی |
"حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ"
﴿سورۂ انفال: آیت: ۳۹﴾
آہ! ہم بہت سوچکے اور غفلت و سرشاری کی انتہا ہو چکی، ہم نے اپنے خالق سے ہمیشہ غرور کیا لیکن مخلوق کے سامنے کبھی بھی فروتنی سے نہ شرمائے۔ ہمار ا وصف یہ بتلایا گیا تھا کہ:-
"أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ"
(سورۂ مائدة: آیت: ٥٤)
(مؤمنوں کے ساتھ نہایت عاجز و نرم مگر کافروں کے مقابلہ میں نہایت مغرور و سخت۔)
ہمارے اسلاف کرام کی یہ تعریف کی گئی تھی کہ:-
"أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ"
(سورۂ فتح: آیت: ٢٩)
(کافروں کےلیے نہایت سخت ہیں، پر آپس میں نہایت رحم والے اور مہربان!)
پھر ہم نے اپنی تمام خوبیاں گنوادیں اور دنیا کی مغضوب قوموں کی تمام برائیاں سیکھ لیں۔ ہم اپنوں کے آگے سرکش ہو گئے اور غیروں کے سامنے ذلت سے جھکنے لگ گئے۔ ہم نے اپنے پروردگار کے آگے دست سوال نہیں بڑھایا، لیکن بندوں کے دستر خوان کے گرے ہوئے ٹکڑے چننے لگے۔ ہم نے شہنشاہِ ارض و سماء کی خداوندی سے نافرمانی کی، مگر زمین کے چند جزیروں کے مالکوں کو اپنا خداوند سمجھ لیا۔ ہم پورے دن میں ایک بار بھی خدا کا نام ہیبت اور خوف کے ساتھ نہیں لیتے، سینکڑوں مرتبہ اپنے غیر مسلم حاکموں کے تصور سے لرزتے اور کانپتے رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ خدا کی بادشاہی کا دن نزدیک آئے، کیا بہتر نہیں کہ اس کےلیے ہم اپنے تئیں تیاری کر لیں۔ تا کہ جب اس کا مقدس دن آئے تو ہم یہ کہہ کر نکال نہ دیے جائیں کہ تم نے غیروں کی حکومت کے آگے خدا کی حکومت کو بھلا دیا تھا، جاؤ آج خدا کی بادشاہت میں بھی تم بالکل بھلا دیے گئے ہو۔"
📙قرآن کا قانون عروج و زوال٭
✍️مولانا ابوالکلام آزادؒ٭
صفحہ: 94-96
Maulana Abulkalam Azad
مولانا ابوالکلام آزاد کے بالا اقتباس پر ڈاکٹر رضوان وزیر جانشاہی کا تبصرہ:
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے محتاط اور دور اندیش الفاظ میں جس سفر کےلیے زادِ راہ کی تیاری اور آنے والے طوفان کےلیے کشتی کی تیاری اور جس مطلع کے غبار آلود ہونے کی بات کر رہے ہیں، اس کا آج کے نفسیات اور اصطلاحات میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت اس طوفان اور اس غبار آلود مطلع کا مشاہدہ وقت گزرنے کے ساتھ یوں ہوا ہے کہ دنیا اور اس کا نظام غیر متوازی چل رہا ہے، جس کی وجہ سے انسانیت ایک عالمگیر خطرے سے دو چار ہو چکی ہے۔ یہ ہر خرد و کلاں اور ہر جگہ اور ہر باشعور احساس کا یہی خوف اور انداز فکر بن چکا ہے۔ اس کی وجہ اور
اس کی عملی شکل اس وقت پوری دنیا میں "Matter is God" کہ "مادہ خدا ہے" کے تصور میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مذہب بن چکا ہے جو پوری انسانیت تقریباً اس وقت اس کا پیروکار ہے، جس کا وجود زبان اور جسم پر سے زیادہ ذہن اور فکر، ذات صدور میں جلوہ گر ہے، اس فکر پر نسلیں تیار ہوئیں۔ اس وقت مجموعی طور پر غیر اعلانیہ، بلا تفریق، تمام ادیان و مذاہب کے متوالیوں پر اس مادی خدا کا غلبہ ہے ،کوئی مانے نہ مانے عملا اس جدید دور میں سب سماج اس نفسیات پر عمل پیرا ہیں۔
اس نفسیات کی طرف مولانا آزاد نے ان الفاظ میں رمز لگایا کہ:- "دین الہی کی روشنی ظلمت و کفر و طغیان میں چھپ رہی ہے"۔ اور اسی مادی الوہیت کی طرف انسانیت کو پہلے سے خبردار کیا کہ تم اب ہر صورت میں خالق و مالک کو خیر باد کہہ دیں گے، اور مادے کے الوہیت کے تناظر کے شعوری یا غیر شعوری قائل ہوتے چلے جائیں گے، اور اپنے ان الفاظ میں کچھ یوں بیان فرمایا:- "اپنے پروردگار کے آگے دست سوال نہیں بڑھایا، لیکن بندوں کے دسترخوان کے گرے ہوئے ٹکرے چننے لگے، شہنشاہ ارض و سماء کی "خداوندی" سے نافرمانی کی، مگر زمین کے چند جزیروں کے مالکوں کو اپنا "خداوند" سمجھ لیا"۔
دوست و دشمن سب تیرے مجذوب ہیں قائل!
کوئی زبان سے ہے قائل کوئی دل سے ہے قائل!
"حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ".
دین مادی یا مادہ خدا ہونے کا مذہب اور سلوک عمل سے زیادہ "نفسیاتی اور ذہنی مرض" ہے۔ جس طرح انسان کے نفس میں دیگر امراض جیسے حسد، حقد، تکبر، ظلم اور خباثت موجود ہوتے ہیں اس طرح مادی الوہیت کی بیماری بھی کچھ اس قسم کی ہے، جس کو قرآن مجید نے اپنی اصطلاح میں "شح نفس" سے تعبیر کیا ہے۔ جس کے سامنے انسان ایک قسم باطنی فروتنی کا شکار رہتاہے۔
حمیت، غیرت، حماست، شجاعت جیسے اوصاف محمودہ دم توڑنے لگتے ہیں، اوصاف رذیلہ کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ یہ سب سے پہلے انسان کے باطن میں ترتیب پاتے ہیں جس کی بنیاد پر ارادے اور اعمال رونما ہوتے ہیں۔ انسان کی بصارت و بصیرت دونوں بے نور بن جاتے ہیں، سچ اور راست، حق و باطل کا نفسیاتی رد عمل خلط ملط بن جاتا ہے۔ اچھے اور سچے لوگ ناپسند ہونے لگتے ہیں، عفاف و پاک دامن لوگ بے قیمت دکھائی دینے لگتے ہیں، اخلاقی اقدار بے وزن اور بے معنی معلوم ہونے لگتے ہیں، نفسی نفسی کے عالم کا غلبہ ہونے لگتا ہے، خود غرضی اور قساوت قلبی اپنے عروج تک پہنچ جاتی ہے، انسانی شرافت کے مقابلے میں مال و زر محترم ہونے لگتے ہیں، جس سے انسان ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور بن جاتا ہے۔ ذات و کردار میں تقسیم واقع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے انسان کے روابط دنیا سے مضبوط اور آسمانوں سے منقطع ہونے لگتے ہیں، اب خدا کے سامنے مغرور اور صاحب قوت و اقتدار کے سامنے سر بسجود بن جاتے ہیں۔ اپنا پرایا لگتا ہے اور بیگانے اپنے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ امن اور سلامتی کا داعی منفور بن جاتا ہے جبکہ فسادی اور بد کردار مقبول بن جاتا ہے۔ بالآخر یہ سب کچھ ہونے کے تسلسل میں "دین الہی" اس کی ذات و کردار میں طاق نسیاں ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک منظم "دین مادی" اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے، جس کی نظروں میں دین الہی کا مؤمن کافر نظر آنے لگتا ہے اور دین مادی کا مؤمن مسلمان نظر آنے لگتا ہے۔ اس قسم صورت حال میں دین الہی مکمل طور مہجور بن جاتا ہے، کیونکہ اب نفسیات اور احساسات کی طرف سے اس کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہوا ہوتا ہے، اس قسم نفسیات میں اب یہ فرق نہیں پڑتا کہ وہ بظاہر کیا اور کون ہے؟ اور سماجی نظم و نسق میں کوئی کون ہے؟ کس مذہب اور دین کے سائے میں درج ہوا ہے؟ کہاں عبادت کے رسومات ادا کرتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ، کا پھر خاص وقعت اور اہمیت نہیں رہ جاتی، جس سے عملا اور بظاہر کوئی تبدیلی رونما ہو۔ بلکہ اس قسم صورتحال میں باطنی طور پر سب لوگ اور ہر نسبت و علاقے کے باسی نفسیاتی طور پر ایک بن جاتے ہیں اور شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر وہ "دین مادی" کے پیروکار شمار ہونے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آنے لگتے ہیں۔ ان سب باتوں کی طرف مولانا آزاد نے اپنے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:-
"آہ! ہم بہت سوچکے اور غفلت و سرشاری کی انتہا ہو چکی، ہم نے اپنے خالق سے ہمیشہ غرور کیا لیکن مخلوق کے سامنے کبھی بھی فروتنی سے نہ شرمائے۔ ہمار ا وصف یہ بتلایا گیا تھا کہ:-
"أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ"
(سورۂ مائدة: آیت: ٥٤)
(مؤمنوں کے ساتھ نہایت عاجز و نرم مگر کافروں کے مقابلہ میں نہایت مغرور و سخت۔)
ہمارے اسلاف کرام کی یہ تعریف کی گئی تھی کہ:-
"أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ"
(سورۂ فتح: آیت: ٢٩)
(کافروں کےلیے نہایت سخت ہیں، پر آپس میں نہایت رحم والے اور مہربان!)".
مسیحیت کے مذہبی فکر کے چالسیڈن کونسل نے 451م میں کہا تھا کہ خدا مادہ سے جدا نہیں، بغیر کسی شک وشبہ کے خدا مادی حقیقت و اشیاء کے ساتھ متحد ہیں۔ چالسیڈن مسیحی چرچ اور کونسل کے نزدیک خدا نہ مادہ سے جدا ہے، نہ علیحدہ اور نہ متغیر۔
اس فکر کی نفی خود بعد کے بائبل کے مذہبی اوراق میں کردی گئی کہ خدا مادی حقیقت کا حصہ نہیں، اور نہ اس وجہ سے مادی اشیاء کی نفی ہوسکتی ہے، اور نہ یہ کوئی فکرمندی کی بات ہے، بلکہ طبعی دنیا اور کائنات سے خدا کے بارے میں سیکھنے اور جاننے کی دعوت دی۔ اور کہا کہ خدا کی دنیا کا خدا کو دخل اندازی دئیے بغیر تجربہ اور سلوک خدا کے مادی اشیاء اور حقیقت کی مہربانی سے محرومی کا باعث ہے۔
اس کے باوجود تاریخی تسلسل کے ساتھ یہی تصور خود مسیحیت کے اندر ایک معمہ سا بن گیا کہ خدا اور مادہ کے درمیان تعلق کو کس طرح واضح کیا جاسکے؟ اس پر بے شمار لکھا گیا، کسی نے "گاڈ میٹر" کا اسلوب اپنایا اور کسی نے "میٹر گاڈ" کی ترتیب اپنائی۔ جو بنیادی طور پر مذہبی اور فلسفیانہ طور پر گاڈ اور میٹر کی حقیقت کو واضح کرنا تھا۔ ان کے سامنے دراصل مذہبی اور سیاسی محاذوں پر تضادات اور تشنگی کو دور کرنا تھا، اور اس کے علاوہ چرچ کو روایاتی طور پر مذہبی رسومات کو دوام دینے بھی دقت تھی جیسے: لیسیجی، مسیحی عوامی عبادت، دعا کا رسم، مری، ایس ٹی مری اور اُورلارڈ" کے ناموں پر جاری مذہبی اجتماعات کا توجیہ بھی مشکل ہوا تھا۔ یہ اس وجہ سے کہ مادہ کا تصور اور تخیل یہی تھا کہ ہر وہ چیز جو وزن رکھتی ہے، اور ایک خاص جسامت رکھتی ہے اور جگہ بھی گیرتی ہے، اس میں ذرات بھی ہوتے ہیں، یعنی کسی ذروں سے بنی ہوئی ہو، اور ان کا اپنا مرکز بھی ہوتا ہے، اور اس کے اندر اجزاء بھی ہو، اور اجزاء کے اردگرد مداروں کا احاطہ بھی ہوا ہو، مادہ کہلاتا ہے۔ اب انہی کے ساتھ انہیں الوہی تناظرات اور مذہبی رجحانات کو پرکھنا پڑا، جس نے ایک قسم عوامی تفکیر کو متزلزل کردیا۔ لیکن بعد میں خود سائنس کی مزید ترقی نے ذرات کے "کوانٹم" کے تخیل نے اس بات کی تردید کی کہ مادی تصور اور تعریف میں "وزن اور سائز" یعنی جسامت اور پیمائش کا ہونا لازمی نہیں۔ اور مادے کی تخلیق کا معاملہ بھی اب سائنس کے سامنے ایک معمہ بن گیا کہ مادہ کی اصل تخلیق ہے کیا؟ جس کی وجہ سے اب خود مادہ خدا کی ذات کی طرح خود کو فکر کی گرفت میں نہیں آنے دیتا۔
اس تسلسل میں پیناتئزم (Pantheism) کا رجحان بھی پیدا ہوا، یعنی کہ خدا کائنات کے ساتھ ہے، مطلب یہ ہے کہ مادی قوت کے ساتھ ہے۔ اور دوسری جانب "اینیمزم"(Animism) کا رجحان بھی پیدا ہوا کہ مافوق الفطرت قوتیں مادی کائنات سے دشمنی کا رویہ رکھتی ہیں۔ جدید سائنس کے سامنے یہی تصور کچھ ان تصورات کے ضمن میں موضوع بحث رہا کہ "انٹرنل گاڈ" اور "انٹرنل انرجی اور ریڈییشن" کی کیا حقیقت ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کے بارے میں سوچنا دو باتوں کے امکان کو پیدا کرتا ہے ایک یہ کہ انٹرنل گاڈ کا عقیدہ پیدا کرے کہ سب کچھ خدا نے تخلیق کیا ہے، یا یہ سب کچھ انٹرنل میٹر/انرجی کا نتیجہ ہے۔ اب یہاں پھر سائنسی رجحان کے دو دھارے ہیں: ایک یہ کہ انٹرنل انرجی سے کائنات بِگ بینگ کے طریقہ سے معرض وجود میں آئی یا خدا نے بِگ بینگ کا طریقہ کار اختیار کیا؟
اس کے بارے میں قرآن مجید نے اپنا فیصلہ کچھ ان الفاظ میں سنایا کہ: "ان السموات والارض کانتا رتقا، ففتقناھما"
کہ کائنات (آسمان و زمین) ایک وجودی شکل میں تھی جس کو زور دار طریقے سے جدا کیا۔
دراصل یہ معمہ "فزکس" اور "میٹا فزکس" کے درمیان پیدا ہوا۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عقل انسانی بشمول فزکس اور میٹا فزکس کی مہارت رکھنے والے مل بیٹھ کر اس تضاد اور فکری بےقراری سے نسل انسان محفوظ بناتے۔ لیکن بد قسمتی سے یہی رجحانات اپنے اپنے مؤقف کے سامنے ایک دوسرے کے مد مقابل بن گئے۔ کسی نے مذہب کا دامن پکڑا، کسی نے فلسفہ کا دامن نہ چھوڑا، کوئی جدید بن گیا اور کوئی قدیم! کسی نے مادہ اپنا خدا مان لیا اور کسی نے مادہ کا انکار کردیا۔ جس کی وجہ سے افکار تقسیم ہوئیں، انسانیت ایک طویل بربادی کے تسلسل میں چلی گئی۔ اس کی اصل یہ تھی کہ حیوانات بشمول انسان اس کائنات میں تین مقاصد کے درپے ہیں: زندگی، قوت اور خوشی۔
ان تین تصورات نے انسانوں کے باہمی تعامل اور معاملات میں ایک دوسرے کو، ہر ایک نے اپنی زندگی، اپنی قوت اور اپنی خوشی کے حصول میں رکاوٹ یا مد مقابل سمجھا۔ جس سے انفرادی یا اجتماعی اختلافات اور تنازعات کا آغاز ہونے لگا۔ جس کی وجہ سے پھر لوگوں کی دانش جدا ہوگئی، اس کی سیاست اور سماجت اجنبی ہونے لگی، زندگی اور قوت اور خوشی کے حصول میں کسی نے مادہ خدا بنا دیا اور کوئی لازوال خدا کے تصور میں پناہ لینا چاہا۔ لیکن اس کے باجود انسانیت کی مشکل حل نہ ہوسکی، معمہ جوں کا توں کا رہا۔
ہونا چاہئے تھا کہ انسانوں کے عالمگیر تین اہداف یعنی زندگی، قوت اور خوشی کا کوئی مشترک اور عالمگیر حل ڈھونڈا جائے، اس کےلیے عالمگیر حدود کا تعین ابدی کی جائے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اب دنیا فساد اور قتل و غارت کا مسکن رہا ہے۔ روئے زمین حیات کےلیے ناقابل رہائش بنا دی گئ ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی الہامی اور دور اندیش فکر و زبان اور الفاظ سے جس طوفان اور سیلاب آنے کی خبر سنائی، اور اس کے اثرات محسوس کیے تھے، جس میں آئندہ پوری نسل انسانیت اس کے گرداب میں چلی جانے کا خوف اور اندیشہ ہے، اس کی واضح الفاظ میں تفصیل یہ ہے:
"مادہ خدا ہے" کا ارتقائی اور پیدائشی آغاز 1792 سے 1800 کے دوران، کل 232 سال کے بچپن سے ہوتے ہوئے اپنی زیست اور جنم کے ایام "وائٹ ہاؤس" سے منسلک ہوتے ہیں، یہ "میٹر از گاڈ" کا پہلا گھر ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران "مادہ خدا ہے" ایک اوائل اور ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی عملی اور عالمی سکونت کےلیے پہلی رہائش گاہ کی بنیاد 1941ء میں رکھی گئی جو 1943 کو "پنٹاگون" کے نام سے مکمل ہوئی، یہ اس مادی خدا کا دوسرا گھر ہے۔
اور اس کی دعوت کو عالمگیر بنانے اور باقی انسانیت اس کے تحت لانے کےلیے عملی شکل دینے کےلیے 1946ء کو ایک اور تعمیر "یو این" کے نام سے ہوئی جس میں دنیا کے تمام ممالک رکنی حثیت سے اقوام متحدہ کے اصول کے تحت اس دعوت اور خدائی کے اقرار اور حلف برداری میں عملاً اور قانونًا شامل ہیں۔ طوفان کی یہی تیاری مولانا آزاد کی نظروں کے سامنے اور اس کے زمانے کے قریب ہو رہی تھی، اور شاید اب دنیا اس طوفان اور سیلاب کے آنے کا مشاہدہ بھی کر چکی ہے۔
اس جدید تصور کے مادی فلسفہ، اس کی عالمگیریت اور اس کی دعوت اور تخاطب؛ سب کچھ ان تین اماکن کے اردگرد ہیں۔ اس کا خدا پیٹاگون میں رہائش پذیر ہے، اس کے پیامبر اور پیغامبر وائٹ ہاؤس میں جمع ہوتے ہیں، جہاں سے وہ اپنے خدا کے ملے ہوئے صحیفے، فرمودات اپنے مخاطبین، متابعین اور متمسکین، رکنی ممالک کو سنا دیتے ہیں۔ وہ پھر دنیا کے گوشے گوشے، کونے کونے، شہر شہر، گلی گلی اور گھر گھر پہنچانے کے پابند رہتے ہیں۔ اس وقت یہی ایک حقیقت ہے، اور یہی سب کچھ ہے، اور اس کو عملاً تسلیم بھی کر چکے ہیں۔ سب لوگ اس مذہب اور اس نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ہیں، اس سے کوئی بھی باہر نہیں اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس کی اجازت اور مفاد کے تحت سماجیات، مذہبیات اور سیاسیات مرتب ہوتے ہیں، ملکوں ملکوں، پھر ملکوں کے ہر ہر شہری اس نظام کے اندر داخل ہے اور عملاً مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی یہ سمجھے یا نہ سمجھے، لیکن اس وقت پوری دنیا کا عملاً نظام یہاں سے ڈیزائن ہوتا ہے، اس کے سامنے ممالک کی سیاسیات اور جغرافیہ ایک انتظامی ڈھانچہ کے سوا کچھ نہیں۔ موجودہ دور میں ممالک کی خود ذاتی حیثیت کچھ نہیں بلکہ اتنا ہے جتنا اس تصور نے دیا ہے۔
اس پوری داستان اور نئے انقلاب کی طرف مولانا آزاد نے اپنے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا:-
"پس سفر سے پہلے زادِ راہ کی فکر کرلو اور طوفان سے پہلے کشتی بنالو، کیونکہ سفر نزدیک تر ہے اور طوفان کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں۔ جن کے پاس زاد راہ نہ ہوگا وہ بھوکے مریں گے اور جن کے پاس کشتی نہ ہوگی، وہ سیلاب میں غرق ہو جائیں گے۔"
اس پوری بحث اور تحول پر ہمارے پاس ایک روایت کی گواہی بھی موجود ہے جس میں اس انداز سے دین الہی سے دین مادی کی طرف رجوع اور عود کرنے کی وضاحت موجود ہے:-
"عن عائشة قالت: إن رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم كان يقول: "لا يَذْهَبُ اللَّيْلُ والنَّهَارُ حَتى تُعْبَدَ اللاتُ وَالعُزَّى"، فقالت عائشة: والله يا رسول الله! إن كنت لأظنّ حين أنزل الله (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ) ...الآية، أن ذلك سيكون تامًا. فقال: "إنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذلِكَ مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ رِيحًا طَيِّبَةً، فَيَتَوَّفَّى مَنْ كاَنَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مَنْ خَيْرٍ، فَيَبْقَى مَنْ لا خَيْرَ فِيهِ، فَيْرجِعُونَ إلَى دينَ آبَائِهِمْ".
زمانی گواہی اور تسلسل کی شہادت کے ساتھ ایسا زمانہ بھی رونما ہونے والا ہے جس میں ایک ایسی اچھی ہوا چلنے لگے گی جس سے وہ لوگ جو اپنے دلوں میں ذرہ برابر ایمان کے حامل ہونگے، وفات پائیں گے، فنا ہو جائیں گے، اور باقی جو رہیں گے وہ لوگ دل و ضمیر میں ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونگے، بے ایمان ہونگے سب کے سب۔
فَیَتوفّٰی کا ایک معنی یہ بھی کیا ہے کہ اَصلُہُ تُوفی، یعنی ان کے اصل ایمان اور دین الہی کے منابع خشک ہو جائیں گے، اور ان کا دین الہی سے روابط مکمل طور منقطع ہوجائیں گے۔ اور جو باقی بچے رہیں گے وہ خیر، اچھائی اور بھلائی اور انسانی رویات و اقدار سے مکمل طور پر بیگانے رہیں گے۔ اور پھر وہ اپنے آباء و اجداد کے پہلے سے منتخب کردہ طور طریقے، رسم و رواج میں چلے جائیں گے۔ وہ عملا دین الہی سے اعراض کرکے دین آباء اور دین مادی کے پیروکار اور فرمانبردار رہیں گے۔
اس روایت کی روشنی میں لوگوں کا دین الہی کو مہجور کرنے اور عرب کا دین امیین کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہوا ہے، اور یہ بھی آپﷺ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کچھ اس انداز میں سوال کرنے کے بعد اظہار فرمایا کہ ایک دین الہی کے بارے میں "لیظہرہ علی دین کلہ" کی صراحت موجود ہے تو دوسری طرف لات و منات کی وہ قدیم پرستش کیسے عود کر جائیگی؟ تو اس کے باوجود آپﷺ نے زمانی تسلسل کے برقرار ہونے اور دنیا کے آباد ہونے کے باوجود لوگوں کا کچھ اس قسم کے بے دینی کے مرتکب ہو جانے کی پیش گوئی فرمائی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اس پہلو کی طرف اپنے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:-
"اس سے پہلے کہ خدا کی بادشاہی کا دن نزدیک آئے، کیا بہتر نہیں کہ اس کےلیے ہم اپنے تئیں تیاری کر لیں۔ تا کہ جب اس کا مقدس دن آئے تو ہم یہ کہہ کر نکال نہ دیے جائیں کہ تم نے غیروں کی حکومت کے آگے خدا کی حکومت کو بھلا دیا تھا، جاؤ آج خدا کی بادشاہت میں بھی تم بالکل بھلا دیے گئے ہو۔"
مولانا ابوالکلام آزاد نے اس پوری داستان کو "قرآن کا قانون عروج و زوال" سے موسوم فرمایا ہے۔
•ختم شد•