موسیٰ خان کے قتل کے سہولت کار
🪶وسیم اکرم حقانؔی |
کچھ عرصہ قبل قومی اخبارات میں راقم الحروف کا ایک کالم "تھیوری آف نان ایشوز" کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں سوفسطائی مکتبِ فکر کے خاص طریقہ وردات کو موضوعِ بحث بنایا تھا کہ وہ دراصل دلیل اور منطق کے دلدادہ تھے اور ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ جس مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، اس کے متعلق لوگوں کو نان ایشوز میں الجھا کر اصل مسئلہ کو منظر سے غائب کر دیتے تھے۔ یہ لوگ اس فن میں پشتون قوم سے کم مہارت رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا جب نان ایشو کو ایشو بنا کر پیش کیا جائے گا اور لوگ اس میں الجھ کر بحث کریں گے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ایک غیر ضروری بحث میں پڑ کر اصل مسئلے کو بھول جائیں گے۔
موسیٰ خان قتل کیس کو بھی اسی اصل کے مطابق حل کیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلیے مسلسل غلط مقدمات پر فاسد اور باطل بیانیہ تشکیل دے کر مذہب اور اہل مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ موسی خان کے قتل کی وجہ یونیورسٹی انتظامیہ اور ان کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں جن پالیسوں کو اس وقت موسیٰ خان کے کلاس فیلوز اور اس کے دوست سوشل میڈیا پر براہ راست تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ براہ راست کہہ رہے ہیں کہ موسیٰ خان کو قتل اس انتظامیہ نے کیا ہے لیکن دوسری طرف کچھ لوگ انتظامیہ کے آلہ کار بن کر ان کو تحفظ فراہم کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ کوشش کر رہے ہیں کہ موسیٰ خان کا قاتل مذہب اور مولوی ہے۔ ان کے بقول موسیٰ خان کا قتل یا موت رباب کی وجہ سے ہوئی ہے اور مولوی کی رباب سے بالکل نہیں بنتی، اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ خان کو مولوی نے قتل کیا۔
یہ شکر ہے کہ یہ لوگ انتہائی پردے کے کام خود کرتے ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اس معاملے میں بھی ہمیں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا کہ یہ مولوی کی کارستانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں حیران ہوں کہ اس کیس میں مولوی کا ذکر کس طرح آتا ہے؟
خود موسیٰ خان کے قریبی ساتھیوں کا دعوی یہ ہے کہ موسی خان کو انتظامیہ اور یونیورسٹی پالیسی نے مارا ہے لیکن ان لوگوں کا کہنا ہے جو پختون کلچر کے نام پر فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے کےلیے ہر وقت میدان عمل میں موجود رہتے ہیں یا شہرت کے بھوکے مولویوں کا ماننا ہے کہ نہیں! موسیٰ خان کو یونیورسٹی انتظامیہ نے نہیں بلکہ رباب دشمن مولوی نے مارا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہیں وہ لوگ ہیں جو اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹا رہے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ موسیٰ خان کے قتل کے الہ کار اور سہولت کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اصل مجرم کا نام نہیں لے سکتے اور نہ اس کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ اگر یہ واقعی موسیٰ خان کے ساتھ کوئی ہمدردی رکھتے ہیں تو کھل کر چیف پراکٹر یا یونیورسٹی کے انتظامیہ کا نام لے کر موسیٰ خان کو انصاف دلانے میں کردار ادا کریں۔ ویسے روڈوں پر کھڑے ہو کر رباب ہاتھ میں لیے خواجہ سراؤں کی طرح تالیاں بجا کر مگر مچھ کے آنسو بہانا موسیٰ خان کے ساتھ خیانت ہے جو یہ خاص لوگ کر رہے ہیں۔
باقی موسیٰ خان کی موت ان سے زیادہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کیونکہ ہم ان کی طرح جذباتی وابستگی کی بنیاد پر مگرمچھ کے آنسو نہیں بہا رہے بلکہ ہمیں اس قتل کے بھیانک نتائج سامنے نظر آرہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہزاروں موسیٰ خان کو اسی طرح موت ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین