حیلوں کی شرعی حیثیت، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ❷
اس سے پہلے حیلہ کی لغوی و اصطلاحی تعبیر پر گفتگو کی اور ان لوگوں کی تردید کی جو افراط یا تفریط کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس پر دلائل قائم کرتے ہوئے حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا جو آپ پڑھ چکے ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ اللّٰہ کا تبصرہ:
اب اس واقعہ پر تبصرہ فرماتے ہوئے علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ:
"و كثير من الناس استدل بها على جواز الحيل وجعلها أصلاً لصحته، وعندى أن كل حيلة أوجبت إبطال حكمة شرعية لا تقبل كحيلة سقوط الزکاۃ وحيلة سقوط الاستبراء وهذا كالتوسط في المسألة فإن من العلماء من يجوز الحيلة مطلقا ومنهم من لا يجوزها مطلقاً وقد أطال الكلام في ذلك العلامة ابن تيمية".
(تفسیر روح المعانی)
ظاہری عبارت واضح ہے کہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ واقعہِ ایوب علیہ السلام جواز الحیل کی اصل یعنی دلیل ہے جس سے لوگوں نے حیلوں کے جواز پر استدلال کیا اور اس کو حیلے کی صحت کےلئے اصل قرار دیا ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”میرے نزدیک یہ تفصیل ہے کہ ہر وہ حیلہ جو کسی شرعی حکمت کے ابطال کا موجب ہو، وہ قابل قبول نہیں ہے، مثلاً زکوٰة ساقط کرنے کا حیلہ اور استبراء ساقط کرنے کا حیلہ؛ اور یہ اس مسئلے میں معتدل بات ہے کیونکہ کچھ علماء حیلے کو مطلقاً جائز کہتے ہیں اور کچھ اسے مطلقاً ناجائز قرار دیتے ہیں، اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس پر طویل بحث کی ہے“۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے قارئین کے فہم و ذوق پر اعتماد کرتے ہوئے یہاں نہ ان لوگوں کا تذکرہ کیا جو مطلقاً جواز کے قائل ہیں اور نہ ان لوگوں کا حوالہ دیا جو عدم جواز کا حکم دیتے ہیں، یہ واقعی قابلِ غور ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک دوست کی کتاب دیکھنے کو ملی جو وہ غالباً تقریظ کےلیے کراچی سے بذریعہ ڈاک ارسال کرنے والے تھے کہ میں نے اس کتاب کا حصہ فوٹوسٹیٹ کروایا جس میں حیلوں کے متعلق ایک خاص بحث تھی۔ وہاں یہ دعویٰ کیا گیا تھا اور بدقسمتی سے کچھ آئمہ کی طرف یہ نسبت کی گئی کہ وہ مطلقاً جواز الحیل کے قائل ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ پھر تو حیلہ اسقاط زکوٰۃ اور استبراء ساقط کرنے کا حیلہ بھی جائز ہوگا کیونکہ مطلق حکم لگا کر آپ پھر تخصیص کا حق نہیں رکھتے۔ بہرحال میں نے اس نادرست تعبیر کی نشاندہی کی اور یہ کہا کہ جتنا میں نے پڑھا اور تلاش کیا کم از کم ان آئمہ اور فقہاء کا یہ مسلک نہیں۔ ہوسکتا ہے کسی ایک فرد یا ایک گروہ کا، جیساکہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ اطلاق پر دلیل کیا ہے؟ تا حال میں تلاش کر رہا ہوں، اگر آپ کو معلوم ہو تو مجھے آگاہ کیجئے گا۔
اس کے باوجود بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ نہ تو تمام حیلے مطلقاً جائز ہیں اور نہ ہی مطلقاً ناجائز، بلکہ بعض جائز اور بعض دیگر ناجائز۔
فقہاء اور محققین نے اس موضوع پر مفصل بحثیں فرمائی ہیں جس کو باحوالہ ذکر کرنا چاہوں گا لیکن اس سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے فقہ حنفی کے مطابق ہر وہ حیلہ جس کے ذریعے کوئی شخص کسی دوسرے کا حق باطل کرنے یا اس کے حق میں شبہہ داخل کرنے یا کسی امر باطل پر ملمع سازی کا کام کریں وہ حیلہ ناجائز ہے۔ جبکہ حرام سے خلاصی، حلال تک رسائی میں موافق شرع تدبیر اختیار کرنا جائز حیلہ ہے۔
امام شعبی رحمہ اللہ کی تصریح:
امام ابوبکر خصاف رحمہ اللہ (حنفی فقیہ و ہم عصر امام بخاری رحمہ اللہ) نے " کتاب الحیل" میں امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ مقولہ نقل فرمایا کہ:-
"لا بأس بالحيل فيما يحل و يجوز، وانما الحيل شيء يتخلص به الرجل من المآثم والحرام ويخرج به إلى الحلال، فما كان من هذا أو نحوه فلابأس، وإنما يكره من ذلك أن يحتال الرجل في حق الرجل حتى يبطله أو يحتال في باطل حتى يموهه و يحتال في شيء حتى يُدخل فيه شبهة. فأما ما كان على هذا القبيل الذي قلنا فلا بأس بذلك".
(كتاب الحيل للخصاف رحمه الله)
"حیلے ایسی چیز ہیں جن کے ذریعے کوئی شخص گناہوں اور حرام سے بچ کر حلال کی طرف آجاتا ہے، چنانچہ جو حیلہ ایسا یا اس جیسا ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور حیلے کی جو قسم مکروہ (ناجائز) ہے وہ ایسا حیلہ ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی دوسرے کے حق کو باطل کر دے، یا کسی باطل چیز پر ملمع چڑھا دے، اور کسی چیز میں حیلہ کر کے اس میں شبہہ پیدا کر دے۔ لیکن اگر کوئی حیلہ اس قبیل سے ہو جس کا ہم نے ذکر کیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے."
مزید یہ حدیث تو آپ بار بار پڑھ چکے ہیں جس کو صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدریؓ اور غالباً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو خیبر کا عامل مقر فرمایا تھا، وہ آپ کی خدمت میں کھجور کی ایک خاص قسم ”جنیب“ لے کر آئے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ: کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ انھوں نے کہا کہ: نہیں یارسول اللہ! ہم عام کھجوروں کے دو صاع دے کر اس کھجور کا ایک صاع یا عام کھجوروں کے تین صاع دے کر اس کے دو صاع خریدتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو (کیونکہ یہ سود ہے) البتہ عام کھجوروں کو دراہم سے بیچ دو، پھر دراہم سے جنیب کھجور خرید لو۔“ (صحیح بخاری، کتاب البيوع)
اس حدیث سے ایک طرف حیلے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے تو دوسری طرف اس حدیث کے متعلق یہ عبارت "و ھذا تعلیم الحیلۃ و انہ نص فی الباب" (یہ حیلے ہی کی تعلیم تھی اور یہ حدیث اس باب میں نص ہے) نقل کی گئی جو میرے خیال میں امام برہان الدین ابن مازہ کی کتاب"کتاب المحیط" کی عبارت ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے بھی اپنی کتاب "غیر سودی بینکاری" میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی۔
اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری اور امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں متعدد مقامات پر جواز الحیل پر بحث فرمائی اور جواز الحیل پر دال مثالیں بیان کرنے کے بعد ابوبکر جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:-
"فهذه وجوه أمرالنبي صلى الله عليه وسلم فيها بالاحتيال في التوصل إلى المباح وقد كان لولا وجه الحيلة فيه محظورا. وقد حرم الله الوطء بالزنا وأمرنا بالتوصل إليه بعقد النكاح… الخ
”مختلف مثالیں ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مباح تک پہنچنے کےلئے حیلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ اگر حیلہ کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جاتا تو وہ کام ممنوع ہوتا۔ اور اللہ تعالی نے زنا کے طریقے پر جماع کو حرام قرار دیا ہے، اور ہمیں اُس تک پہنچنے کےلئے نکاح کا حکم دیا ہے، اور ہمارے لئے ناحق کسی کا مال کھانے کو منع فرمایا ہے، اور اس کو خریداری اور ہبہ وغیرہ کے ذریعے جائز قرار دیا ہے۔ لہذا کسی ممنوع کام تک پہنچنے کو ایسے طریقے سے جائز کرنے کا شریعت نے مباح قرار دیا ہے جو شخص انکار کرتا ہے تو وہ در حقیقت دین کے اصولوں اور شریعت سے ثابت شدہ امور کو رد کرتا ہے۔ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالی نے یہودیوں کے لئے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار ممنوع قرار دیا تھا، اور انھوں نے سنیچر کے دن مچھلیوں کو بند کر دیا، اور اتوار کے دن انھیں پکڑ لیا، تو اس پر اللہ تعالی نے ان کو عذاب دیا۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ در حقیقت سنیچر کے دن ان کے لئے مچھلیوں کو روکنا بھی ممنوع تھا، اگر سنیچر کے دن مچھلیوں کو روکنا منع نہ ہوتا تو اللہ تعالی یہ نہ فرماتے کہ انھوں نے سنیچر کے دن حد سے تجاوز کیا۔
(جاری ہے)