اسلام میں مزدور کی حقوق اور حیثیت
حیدرعلی صدّیقی |
زندگی مختلف شعبوں کا مجموعہ ہے، اور یہ شعبے ایک دوسرے سے باہم یوں جڑے ہوئے ہیں کہ ہر شعبہ جتنا بھی ترقی کا سفر طے کرے لیکن کسی نہ کسی موڑ پر وہ دوسرے شعبہ کا محتاج ضرور رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک شعبہ مزدور طبقے کا بھی ہے، ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ مزدور کے بغیر اسکی زندگی کیسے گزر سکتی ہے! مزدور کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہم کتنے ہی کامیاب اور کروڑ پتی کیوں نہ ہوجائے لیکن ہمارا کوئی بھی کام مزدور کے بغیر چل نہیں سکتا۔ ایک متوسط فرد سے لے کر بڑے سے بڑے افسر اور بیوروکریسی تک زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ فرد مزدور کا محتاج ہے۔ اب بنیادی بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ کی اس ضرورت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں خود سے پوچھنا ہے کہ کیا ہم مزدوروں کے ساتھ وہ سلوک اور رویہ اختیار کرچکے ہیں جو مذہب اور انسانیت کا تقاضا ہے؟ اگر جواب نہیں میں آئے تو لامحالہ ہمیں مزدور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مزدور طبقہ عام انسانوں پر مشتمل ہے، انکی تخلیق میں کوئی جسمانی اور ذہنی کمی نہیں ہے سوائے اسکے کہ مزدور لگژری زندگی سے بہت دور ہیں اور انکے بعض افراد تو خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جدید دنیا اور انسانی حقوق کے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی مزدوروں کے ساتھ جو سلوک اپنایا گیا ہے، اس سے بعض اوقات گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ انسان بھی نہیں اور نہ انھیں راحت و آرام کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مزدور کو کمتر سمجھنے اور اسکا معاشی استحصال کرنے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم میں سے ہر کوئی مزدور سے زیادہ سے زیادہ کام حاصل کرنے کا خواہش مند ہے لیکن معاوضہ بھی ہم اپنی پسند کا دیتے ہیں جس سے مزدور زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا۔
ہم انکی عام اجرت میں زائد وقت کا کام بھی لیتے ہوئے اسے مجبور کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں اسے کام سے فارغ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ مزدور سے اسکی طاقت سے زیادہ کام لینا گویا ہمارے لیے فخر کی بات ہے، لیکن اجرت دیتے وقت ہمارا انداز یہ ہوتا ہے جیسے ہم اس پر احسان کررہے ہیں۔
آج دنیا میں یوم مزدور منایا جاتا ہے، سارے سرمایہ دار چھٹی انجوائی کرتے ہیں لیکن کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس دن مزدور بھی چھٹی کرلیتے ہیں یا کام کرتے ہیں؟ مزدور کے ساتھ یکجہتی کےلیے چھٹی منانا اچھی بات ہے لیکن یہ جاننے کےلیے ہم نے کبھی کوشش کی کہ مزدور کو اسکے حقوق میسر ہیں بھی کہ نہیں؟
اسلام نے مزدور و مالکان دونوں کے فرائض کو واضح طور بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی نہ کریں۔ اسلام نے مزدوروں کو ان کا جائز حق دیا اور مالکان کو پابند کیا کہ مزدوروں کو کم تر نہ سمجھیں، اگر مزدور سے کام لیا جائے تو اسکو اس کا حق فوراً دے دے۔
اسلام نے مزدور کا جو تصور دیا ہے وہ اقوام عالم کےلیے مشعل راہ ہے۔ مزدور کے بابت اسلام نے جو رہنمائی کی ہے اگر اسکو عملی کیا جائے تو مزدور کا حق ضائع نہ ہوگا اور اسی طرح وہ اپنے کام کو خوب محنت اور ایمانداری سے پورا کرے گا، یوں مزدور اور مالک دونوں مطمئن رہیں گے۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ مزدور افراد تمہارے ہی ہم شکل، ہم جنس اور تمہارے بھائی ہیں، بات اتنی ہے کہ اللہﷻ نے انھیں آپ کا ماتحت بنادیا ہے، سو جو آپ کھاتے ہیں وہ انکو بھی کھلائیں! اور جو آپ پہنتے ہیں وہ انکو بھی پہنائیں! اور اس سے اسکے وقت اور طاقت سے زیادہ کام نہ لیں! اگر لینا ہے تو اسکی مدد کریں! اور زائد وقت کی مزدوری بھی دیں!
اسلام کا مندرجہ بالا اصول کتنا زبردست اور واضح ہے! مگر کیا ہم اس کو عملی کرنے کی کوشش کریں گے؟
اسلام کا حکم ہے کہ مزدور کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا جائے لیکن ہماری صورتحال کیا ہے؟ اسکا ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے۔ حضور اکرمﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن جن تین افراد کے خلاف میں مدعی بنوں گا ان میں ایک وہ شخص ہے جو مزدور سے کام تو پورا لے لیکن اسکی مزدوری پوری نہ دے یا کم دے یا بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر کرے۔
مزدور کے ذمہ کچھ فرائض مذہبی بھی ہیں جن کو ادا کرنا اس پر لازم ہے، اسلام کے رو سے جس طرح مزدور کو اس کی اجرت کا وقت پر دینا لازم ہے اسی طرح مالکان پر یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ کام کے دوران فرائض و واجبات مثلاً نماز وغیرہ کا وقت آجائے، تو مزدوروں کو اس کی ادائیگی کےلیے وقت اور جگہ فراہم کی جائے۔
غلطی سے کوئی بھی انسان مبرا نہیں ہے! مزدور سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے لیکن اسکو معاف کرنا چاہیے! حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر مزدور ستر مرتبہ غلطی کرے تو بھی اسے معاف کریں۔
مزدور کے متعلق اسلام نے جس طرح مالکان کےلیے ہدایات بیان کی ہے بالکل اسی طرح مزدور کےلیے بھی ہدایات بیان کی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مزدور اس امر کا ذمہ دار ہے کہ:
• وہ اپنا کام معاہدے کے مطابق بروقت ایمانداری اور اخلاق کے ساتھ پورا کرے۔
•مزدور مالک کے کام کا امانت دار ہے، سو وہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ کام اور اسکے متعلق اشیاء کا ایمانداری سے حفاظت کرے، اور اسے کام کے بعد مالک کے حوالے کرے۔ اگر کوئی چیز اتفاقاً خراب ہوجائے تو مزدور پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن اگر مزدور نے اسے قصداً خراب کیا تو اس چیز کا تاوان دے گا۔
•اگر مزدور مالک کے ہدایت کے خلاف کام کرے اور اس میں کوئی نقصان پیش آئے تو مزدور اسکا تاوان ادا کرے گا۔
•جتنے دن کےلیے کام کا معاہدہ ہوا ہے تو مزدور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کام پورا کیے بغیر اس کو چھوڑ دے۔
اسلام کے یہ رہنمائی کتنی واضح ہے! اس جامع اور رہنما اصولوں کو اپنائے بغیر معاشرے میں مساوات اور خوشحالی کا قیام ناممکن ہے، ان اصول کو اپنانے سے ہی مزدور کا استحصال ختم ہوگا اور مالکان کو ان کا کام پورا ملے گا۔ اب ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ مزدور کی روایتی چھٹی منانے کے بجائے زیادہ توجہ اپنے اور مزدوروں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو پہچاننے پر دیں اور ان حقوق اور ذمہ داریوں کے مطابق اپنے کاموں کو آگے بڑھائے۔