جہاد؛ تعریف، ضرورت و اہمیت
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کےلیے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے“۔
جہاد کے عناصر ترکیبی اور اخلاق کی اہمیت:
صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شرپسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں، دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہوگا اس لیے چاہیے کہ حتی الوسع بڑھ کر جنگی تیاری کی جائے تاکہ طاقت ور کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا: ’’اے مسلمانو! ان سے مقابلہ کےلیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے قوت کے سامان اور پلے ہوئے مضبوط گھوڑے تیار رکھو تاکہ تمہارا رعب چھایا رہے۔ تمہیں کیا خبر تمہارے اور اللہ کے دشمن کہاں کہاں ہیں“۔ (سورہ انفعال، آیت نمبر: 60)
جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اعتبار سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں:
• جہاد بالعلم
• جہاد بالمال
• جہاد بالعمل
• جہادبالنفس
• جہاد بالقتال
جہاد بالعلم:
یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر و جہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔
جہاد بالعمل:
جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کی بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کےلیے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔
جہاد بالمال:
اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
جہاد بالنفس:
جہاد بالنفس بندۂ مومن کےلیے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہوجائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
جہاد بالقتال:
جرات، شجاعت اور جوش جہاد!
کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔
جہاد کب اور کیوں نازل ہوا؟
جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر غزوہ ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے۔ یہ فقرہ یہاں لکھا پایا گیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ جب حضرت موسیٰ 1400 قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔ صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔ وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اور فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔ جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میں فلسطین فتح ہوگیا۔
جہاد کا حکم جو قرآن کریم میں ہے:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کےلیے فرمایا:
’’اے نبیﷺ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے‘‘۔
(سورہ التحریم، آیت: 9)
اور اہل کتاب کے خلاف جہاد کےلیے فرمایا:
’’اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہوکر رہیں‘‘۔
(التوبہ، آیت: 29)
اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! اپنا تحفظ کرو اور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔
(النساء، آیت: 71)
اور نبی کریمﷺ سے فرمایا: ’’اے نبیﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کےلیے آمادہ کرتے رہیں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے“۔
(النساء، آیت: 84)
فرمایا: ’’اے مسلمانو! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کےلیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمہارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکوگے“۔
(سورہ توبہ، آیت: 39)
جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں۔
ہدایات ِ مجاہد:
جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! جب تمہارا مقابلہ کسی جماعت سے ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کےلیے نکلے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے حالانکہ ان کے اعمال اللہ کی دسترس سے باہر نہ تھے اور جب شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمہارا حامی ہوں، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری الذمہ ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے۔ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں“۔
(الانفال، آیت: 45 تا 48)
’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں“۔
(الصف، آیت: 3)
اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔
وعیدِ ترکِ جہاد:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ، وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِغَزْوٍ، مَاتَ عَلَى شُعْبَةِ نِفَاقٍ."
(سنن النسائی، حدیث: 3101)
”ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مرگیا، اور اس نے جہاد نہیں کیا، اور نہ ہی جہاد کے بارے میں اس نے اپنے دل میں سوچا و ارادہ کیا، تو وہ ایک طرح سے نفاق پر مرا“۔
وما علینا الا البلغ المبین