![]() |
| ترجیحات/سیاست |
ترجیحات کی سیاست
علامہ رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ”مفاتیح الغیب“ میں "آسماء و صفات" کی بحث میں ایک مناسبت سے سوال اٹھاتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں، کہ "لم وجد العالم"؟ یہ عالم کیوں پیدا کیا گیا؟ "قلنا: لاجل ان اللہ اوجدہ"۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بس اللہ تعالی نے پیدا کیا۔ کیونکہ "تکوین" ایک مخصوص نسبت اور ایک مخصوص اضافت سے عبارت ہے، اور یہ دراصل حقائق اشیاء اور چیزوں کے "حصول" میں "ذات باری تعالی" کی "قدرت" کا "تاثیر" ہوتا ہے۔ لہذا تمام اوصاف کا اصل "مظہر" ذات باری تعالی ہیں، وہ خالق ہیں، وہ رازق ہیں، وہ محیی و ممیت ہیں، وہ نافع بھی اور شرف و مجد دینے والے بھی ہیں۔ ان اوصاف کا سوائے ذات باری تعالی کے اور کسی سے امید و توقع نہیں رکھی جاسکتی؛ نہ حاکم سے، نہ عالم سے، نہ زاہد سے اور نہ تاجر سے وغیرہ۔
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ:
”اللہ تعالی کے اسماء حسنہ دراصل "صفات سلبیہ" کے مقابلے میں واقع ہوئے ہیں“۔
اللہ تعالی "عالم" ہیں تو علم کی ضد کی خود بخود نفی ہوگئی ہے۔ اللہ تعالی "رازق" ہیں تو بخل کی خود بخود نفی ہوگئی۔ اللہ تعالی "غنی" ہیں تو "فقر" کی خود بخود نفی ہوگئی۔ اللہ تعالی حی و قیوم ہیں تو "زوال" کی خود بخود نفی ہوگئی۔۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی طرف سے فقر، غربت، افلاس جیسی نسبت کو پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی ہے کہ اللہ تعالی کو فقر و غربت کی صفت سے متصف کرنا گوارا نہیں۔ اس بات کی، تہذیب و تمدن کے اعلی درجے کے اسلوب میں یوں ترتید فرمائی: "لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء"
”ان لوگوں کی بات اللہ تعالی کو پسند نہیں آئی جنہوں نے خود کو غنی قرار دیا اور خالق کل کائنات کی نسبت میں غربت و افلاس کہتے ہیں“۔
بلکہ اللہ تعالی صفت غنی اور صفت استغناء دونوں سے مالا مال ہیں، "وھو یطعم ولایطعم" کھلانے والے تو وہ ہیں، آپ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہ وصف اپنائی جاسکتی ہے تو یہ صرف ذات باری تعالی سے اپنائی جاسکتی ہے۔ یہ اس طرح کہ صفت غنی کو اسماء حسنی میں مانا جائے اور غربت و فقر کو صفت سلبیہ قرار دیا جائے۔ اور اس تناظر میں لوگوں کے درمیان اپنایا جائے کہ انسان کے بارے میں بھی غنی کو دیکھا جائے اور غربت و افلاس سے بچایا جائے۔
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ:
”اس سلسلے میں غربت اور فقر وصف سلبی ہے اور جہاں تک اسلامی تعلیمات میں ایک حوالے سے پذیرائی ملتی ہے یہ دراصل اس وجہ سے کہ انسان کو صفت غنی منتقل کرنا مشقت اور عرق ریزی سے خالی نہیں ہوتا اور فقر کی حالت میں انسان اگر صبر سے کام لے تو مال دار بننے کی مشقت اور پریشانی سے بچتا رہتا ہے“۔ (حب الفقر لقل مونہ)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”فقیر کا لفظ "فقار" سے مشتق ہے جو فقرہ اور ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ غربت و افلاس کی وجہ سے فقیر اور محتاج کی "کمر" ٹوٹ جاتی ہے“۔
(کان فقارہ انکسر لشدہ حاجتہ)
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ مصائب اور تکالیف کے اسباب دو طرح ہیں: ❶ قدرتی ❷ انسانی.
مصائب اور پریشانی کبھی کبھار قدرتی ہوتے ہیں جیسے: "خوف" ایک آفت ہے جو طوفان، زلزلے، سیلاب، سخت سردی و گرمی کی شکل میں پیش آتا ہے۔ اور "خوف" کبھی کبھار انسان کے "عمل" اور "کردار" سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح فقر، غربت اور محتاجی ایک آفت اور مصیبت ہے، اس کی وجہ کبھی قدرتی سبب ہوتا ہے اور کبھی انسان کے ہاتھوں بے جاء دخل اندازی، غلبہ و تسلط کی بموجب لوگ بھوک، افلاس کے شکار بن جاتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک "البآساء والضراء" اصل مادہ "البوس، الضراء" سے ماخوذ ہیں، جو ایک قسم کی "بیماری" ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک فقر و افلاس ایک بیماری ہے۔
علامہ رازیؒ آیت "کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا الوصیہ للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین"
کے تحت لکھتے ہیں کہ:
”مال و دولت اور ترکہ میں والدین اور قریب کے رشتہ داروں کے حق میں وصیت واجب ہے۔ اس بات کو لازم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت لوگ اپنی قدر و منزلت اور فخر و شرافت منوانے کی خواہش میں دور دور کے افراد میں "وصیت" کیا کرتے تھے اور گھر کے اندر والدین اور دیگر اقارب چھوڑ دیتے تھے۔ لہذا اس مناسبت سے پہلے اندرون خانہ کے حال و احوال کی خبر گیری کو لازم قرار دے دی گئی“۔
عرب لوگ کہتے ہیں کہ "فقر الفتی یذھب انوار وجہہ کما تزول ضوء الشمس عند الغروب"، غربت اور افلاس کی وجہ سے ایک خوبصورت نوجوان کی خوبصورتی اس طرح زائل ہوجاتی ہے جس طرح سورج کی روشنی غروب ہوتے وقت ختم ہوجاتی ہے۔
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ:
"کما ان اصلاح الارض بمطر فاصلاح الخلق بالعلم"،
(مفاتیح الغیب ج2، ص402)
زمین کی زرع، نباتات، روئیدگی بارش کی وجہ سے نکلتی ہے۔ اور لوگوں کے اعمال، طاعات، ترقی "علم" کی بدولت ممکن ہے۔
جس طرح بارش میں رعد و برق ہے اس طرح علم میں وعد و وعید ہے۔ بارش نافع و ضار ہے اس طرح علم بھی نافع و ضار ہے۔ "کم من مذکر باللہ ناس باللہ"، کتنے خدا کو یاد کرنے والے ہوتے ہیں بظاہر جو خدا کو فراموش کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور "وکم من مخوف باللہ، جرئ علی اللہ"، کتنے خدا سے ڈرانے والے ہیں جو خود خدا کے حق میں بےپروا رہتے ہیں!۔ "وکم من مقرب الی اللہ بعید عن اللہ"، بہت سے لوگ ہیں جو خدا کی طرف لانے والے ہوتے ہیں اور خود خدا سے دور رہتے ہیں۔ "وکم من داع الی اللہ فار من اللہ"، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا کی طرف بظاہر داعی ہوتے ہیں حالانکہ خود خدا سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ: ”دنیا ایک خوبصورت بوستان ہے اور اس کی "زیب و زینت" پانچ چیزیں ہیں: علم العلماء، عدل الامراء، عبادہ العباد، امانت التجار اور نصیحت المحترفین“۔
ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "امت خواص کی طرف سے فساد کا شکار رہی ہے، فساد کی جڑ خواص ہیں، عوام نہیں"۔
(ماجاء فساد ھذہ الامہ الا من قبل الخواص)
یہ خواص کل پانچ ہیں: ❶ اہل علم و دانش، ❷ غزات، ❸ زھاد، ❹ تجار، ❺ ولات۔
علماء انبیاء کے جانشین ہوتے ہیں اور زہاد و پرہزگار لوگ زمین میں لوگوں کے لیے بطور ستون کا کام دیتے ہیں۔ اور غزات اللہ کا لشکر اور سپاہی ہوتے ہیں اور تاجر لوگ زمین کے امین ہوتے ہیں اور ولات اور اصحاب اقتدار دراصل چرواہے و راہنما ہوتے ہیں۔ عظیم منصب کا فساد اور بگاڑ بھی عظیم تر ہوتا ہے۔ جب عالم حق کے لیے گرانے والا اور مال کے لیے اٹھنے والا بن جائے تو پھر جاہل کس کی اقتداء کرے گا؟ جب زاہد دنیا میں راغب بن گیا تو پھر تائب کس کی اتباع کرے گا؟ جب غازی طمع ساز اور دکھاوے والا بن جائے تو پھر دشمن پر کون فتح یاب ہوگا؟ اور جب تاجر خائن بن جاتا ہے تو دنیا میں امانت کے تحفظ کی توقع کس سے کی جائیگی؟
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ: ”علماء اور اہل علم و دانش تین طرح کے ہیں: ❶ عالم باللہ غیر عالم بامر اللہ، ❷ عالم بامر اللہ غیر عالم باللہ، ❸ عالم باللہ و بامراللہ۔
اول قسم کے علماء عبادت گزار ہوتے ہیں اور معرفت الٰھیہ میں کوشاں رہتے ہیں اور نور الجلال و الکبریاء میں غرق رہتے ہیں، ان کو احکام کا زیادہ ادراک نہیں رہتا۔
دوسری قسم وہ ہیں جن کو عالم بامراللہ اور غیر عالم باللہ کہتے ہیں۔ ان کو حرام و حلال، جائز و ناجائز اور حقائق الاحکام کا علم ہوتا ہے لیکن "اسرار جلال اللہ" سے بے خبر رہتے ہیں۔ (وھوالذی عرف الحلال والحرام و حقائق الاحکام و لکنہ لا یعرف اسرار جلال اللہ)
(مفاتیح الغیب ج2، ص402)
اور تیسری قسم وہ ہیں جن کو عالم باللہ اور عالم باحکام اللہ کہتے ہیں۔۔یہ دراصل "معقولات" اور "محسوسات" کی حد مشترک پر ہوتے ہیں۔ عالم الغیب اور عالم الشھادہ کے بین بین رہتے ہیں۔ ان کے پاس دو طرح کا علم ہوتا ہے، غیب میں "اضافی ادراک" رکھتے ہیں اور شھادت و حضور سے باخبر رہتے ہیں۔ یہ کبھی اللہ تعالی کے ساتھ "محبت" میں رہتے ہیں اور کبھی لوگوں کے ساتھ "شفقت و رحمت" کی حالت میں ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالی سے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو عوام میں اس طرح گول مل بن جاتے ہیں جیسا کہ ان کو خدا یاد ہی نہیں رہتا، اور جب خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اس طرح غرق ہو جاتے ہیں گویا ان کو مخلوق کا ادراک تک ہی نہیں۔
(فاذا رجع من ربہ الی الخلق صار معھم کواحد منھم کانہ لایعرف اللہ واذا اخذ بربہ مشغلا بذکرہ و خدمتہ فکانہ لایعرف الخلق فھذا سبیل المرسلین والصدقین)
علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ:
”حکماء اور فلاسفہ پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہیں اور "کبراء" آخری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں“۔ علامہ رازیؒ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ "سائل العلماء" کہ علماء سے پوچھا کرو۔ ان سے وہ علماء مراد ہیں جن کو خدا اور احکام اللہ دونوں کا علم حاصل ہو اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
"معلم الخیر اذا مات بکی علیہ السماء ودواب الارض و حیتان البحور"۔
"خیر و بھلائی پھلانے والے اگر کسی عالم و صاحب علم کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اسکے پیچھے آسمان والے بھی، زمین کی مخلوق بھی اور سمندر میں مچھلیاں سب رونے لگتی ہیں"۔
ختم شد
