![]() |
🪶ڈاکٹر رضوان اللہ وزیر جانشاہی |
انسان میں تخلیقی اور فنی مہارت اور صلاحیت پیدا ہونے کےلیے انسان کا اس کے عنصری اور ظاہری جسم کے ارادہ، خیال اور باطن کے حوالے سے ایک کامل تحول سے گزرنا پڑتا ہے، اس تغیر کے بعد ایک فنکار اور تخلیق کار کا وجود ممکن بن جاتا ہے۔ جب انسان یہ قدرت حاصل کرنے لگتا ہے کہ وہ عناصر، رنگوں، اہنگوں، خیالات اور افکار کو ارادی اور تخلیقی طور پر کچھ ایسی ترکیب اور تنسیج دے سکے جس کی عملیت سے احساسات اور جذبات کو متوجہ کرکے ایک خاص زوایہ پر مرکوز ہونے پر مجبور ہوجائیں۔
یہی عملیت کبھی فکر و دماغ میں، کبھی بصارت میں، کبھی ہاتھوں میں، کبھی سماع میں اور کبھی خط و کتابت میں رونما ہوتی ہے، جس سے کوئی ادیب، کوئی فلسفی، کوئی زاہد و درویش، کوئی شاعر، کوئی اداکار، کوئی فنکار، کوئی موسیقار وغیرہ اپنی اپنی اصطلاح اور اپنا اپنا نام کما لیتا ہے۔ یہ سب دراصل ایک ظاہری نوعیت کا باطن کی طرف ایک تحول کے مظاہر ہیں۔
اس قسم ظاہر کی تحلیل اور پھر ایک فن کی طرف تحول اور تغیر کے بارے میں سگمنڈ فرائڈ کہتے ہیں: "نفس کا ظاہر سے کسی فن کی طرف تحول ایک "مجروح روح" کی لذت ہوتی ہے"۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ نفس کو تصادم کی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے، جس میں بے شمار تصادمات اور مجادلات پیش آتے ہیں، جو نفس کے اہداف تک رسائی کی راہ میں پیش آتے ہیں، اور نفس جب اپنے اہداف تک رسائی میں دقت کا سامنا کرتا ہے یا عاجز بن جاتا ہے تو کسی صدمے کا شکار رہتا ہے۔ نفس پر اس قسم صدمہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نفس ایک حالت سے دوسری حالت میں پلٹنے، بدلنے اور تحول کرنے کے مرحلہ سے گزرنے لگتاہے، اور اپنے اغراض تک پہنچنے کی بجائے پھر ایک "فنی تحول" کی طرف چلا جاتا ہے۔ اور پھر نفس اغراض کی بجائے "فنون" کا رخ کرنے لگتا ہے، جیسے شعر و شاعری، موسیقی، رسم، نقش و نگار، نوشت اور ربط و میل کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم سابقہ ادوار کی کتابوں، تحریروں، قصص اور کہانیوں کا تتبع کرتے ہیں، اور اس میں ادیبوں، شاعروں، زُہاد، فنکاروں اور اداکاروں کی زندگی کو ٹٹول لیتے ہیں تو اس میں کوئی نا کوئی "خون آلود قصہ" پڑھنے کو ملتا ہے، جسے پڑھ کر نفس ایک ارتفاع اور بلندی کی طرف پرواز کر لگنے لگتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو بہت مانوس ہونے لگتا ہے۔ اور یہاں سے انسان کا نفس "فلسفہ" کی طرف عبور کرنے لگتا ہے، جس سے وہ آگے "زہد" اور "قناعت" کے طریقہ عمل اختیار کرنے لگتا ہے۔ اور اس کے بعد وہ زندگی میں ایک زاہد اور پرہیزگار انسان بن جاتا ہے، اور پھر وہ زندگی میں بے ذوق و ذائقہ، بے مقصد، پراگندہ اور غیر ضروری اشیاء سے احتراز کرکے قناعت اختیار کر لیتا ہے۔
لیکن اس "تحول"، اس "زہد"، اس "قناعت"، اس "فلسفہ"، اس "فنکاری" اور اس "موسیقاری" کے درپردہ کوئی "خون آلود" اور "المناک" فکر کار فرما ہوتی ہے، جو ایک ایسے متصادم نفس اور ذات کے عکاس ہیں جو اپنے اصل مقاصد اور اغراض کے بعیر میں شدائد زمانہ کے تصادمات سے محروم ہو کر "زہد" اور گوشہ نشینی میں اپنی زندگی کا سکون اور ذوق اور ذائقہ کی تلاش کے درپے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زاہد، قانع، شاعر، فلسفی، فن و فنکار اور موسیقار، سب کا "سیراب گاہ" اور "سرچشمہ" ایک ہی ہوتا ہے۔