انسان جب کسی چیز سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور انسان چاہے کہ مجھے اس چیز سے پورے کا پورا فائدہ حاصل ہوجائے۔ تو اس چیز کےلیے ایجاد کرنے والے یا بنانے والے نے کچھ ضروری اصول و قوانین وضع کیے ہوتے ہیں اگر ان اصول کے تحت اس چیز کو زیر استعمال لایا جائے تو اس سے ہمیں فائدہ حاصل ہوجاتا ہے، اگر ہم اس ضروری قوانین پر عمل کرے تو ہمیں فائدہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو اس چیز سے ہمیں یا تو ناقص فائدہ حاصل ہوجاتا ہے یا سِرے سے فائدہ حاصل ہی نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح علم حاصل کرنے کےلیے بھی علمائےکرام نے اصول وضع کیے ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کرے تو یہ ہمارے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے۔
علمائے کرام نے علم حاصل کرنے کےلیے درج ذیل گیارہ اصول وضع کیے ہیں:
❶صحیح نیت ❷ادب ❸اچھی صحبت ❹مشاورت کرنا ❺صبر کرنا ❻اخلاق ❼محنت کرنا ❽دعا کرنا ❾سخاوت کرنا ⓿❶توکل علی اللہ کرنا ❶❶تقویٰ و پرہیزگاری۔
(1) صحیح نیت کرنا:
علم حاصل کرنے کےلیے پہلا اصول صحیح نیت ہے۔ یعنی جب ہم علم حاصل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں صحیح نیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ نیت ایسی ہو کہ اس میں خالص اللہ کی رضامندی ہو۔
حدیث شریف میں آتا ہے: ”انّما الاعمال باالنیات“
ترجمہ: تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہیں۔
علمائےکرام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ اعمال ظاہراً تو دنیاوی لگتے ہیں لیکن اچھی نیت کی وجہ سے وہ اخروی بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ اعمال تو اخروی ہوتے ہیں لیکن بری نیت کی وجہ سے دنیاوی بن جاتے ہیں۔
(2) ادب کرنا:
علم حاصل کرنے کےلیے دوسرا اصول ادب کرنا ہے جیسا کہ فارسی مقولہ ہے ”باادب بانصیب بےادب بےنصیب“ طالب علم کےلیے اپنے اساتذہ کرام اور کتابوں وغیرہ کا ادب کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح اسلام بھی ہمیں ادب کی تلقین کرتا ہے۔ جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا:
”الدین کلہ ادب“
ترجمہ: دین سراسر ہی ادب ہے۔
ادب کرنا ہر مسلمان کےلیے لازمی ہےلیکن طالب علم کو حصول علم کےلیے اور منزل مقصود تک پہنچنے کےلیے علم کے جو بھی متعلق چیزیں ہیں ان سب کا ادب کرنا ہوگا۔
(3) اچھی صحبت:
طالب علم کی یہ صفت ہے کہ وه کسی کے ساتھ تعلق نہیں رکھے گا۔ اگر وه تعلقات بنانے میں مصروف ہوجائے تو اس کی جو منزل مقصود ہے وہ رہ جائے گی۔ اگر پھر بھی وہ صحبت اختیار کرے تو ایسے شخص سے تعلق رکھے جو متقی ہو اور محنتی ہو۔ ایسے شخص کو دوست نہ رکھے جو سست ہو، جو گناہوں میں مبتلا ہو اور جو فضول گویائی والا ہو کیونکہ فارسی کا ایک مصرع ہے:
”یارِ بد بدتر بود از مارِ بد“
ترجمہ: برا دوست برے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
حضرت مولانا زکریا ؒ اپنے آپ بیتی میں اپنے والد صاحب ؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جو طالب علم بڑا استعداد والا ہو لیکن اس میں زیادہ تعلقات بنانے کا مرض ہو تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میں علم حاصل کرنے کا یہ استعداد ختم ہوجائے گا۔
(4) مشاور کرنا:
طالب علم کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کام میں اپنے اساتذہ سے مشورہ کرے، کیونکہ جو کام مشورہ سے ہو جائے تو بعد میں پشیمانی نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
”ماھلک امرءٌ عن مشورة“
ترجمہ: مشورہ کے بعد کوئی آدمی ہلاک نہیں ہوا ہے۔
یہ مشورہ اتنی اہم چیز ہے کہ حضورﷺ کو بھی مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
”وشاورھم فی الامر“
ترجمہ: اپنے کاموں میں ان (صحابہؓ) سے مشورہ کیجیے۔
حضوراکرمﷺ باوجود یہ کہ سب سے زیادہ دانا، عقلمند اور سمجھدار تھے۔ لیکن پھر بھی ہر کام میں صحابہؓ سے مشورہ لیتے تھے۔ حتیٰ کہ گھر کے کاموں میں بھی صحابہؓ سے مشورہ کرتے تھے۔
(5) صبر کرنا:
علم کے میدان میں طالب علم کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کامیاب طالب علم وہ ہے جو ان مصائب اور مشکلات پر صبر کا مظاہرہ کرے۔ اگر ان مصائب پر صبر کا مظاہرہ نہ کرے تو علم جیسے عظیم نعمت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ بات مشہور ہے کہ علم سراسر ہی عزت ہے لیکن ذلتوں کے راستوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
(6) اخلاق:
طالب علم کےلیے اچھے اخلاق فرض العین ہے۔ جس کے اخلاق اچھے نہ ہو تو اس نے پڑھا سب کچھ ہے لیکن سیکھا کچھ نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
”ان من احبکم احسَنکم اخلاقاً“
ترجمہ: تم میں سے مجھ کو (اللہ کو) زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہو۔ اچھے اخلاق میں حضورﷺ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ قرآن مجید میں آتا ہے:
”وانّک لعلیٰ خلق عظیم“
ترجمہ: بے شک آپ اخلاق کے اچھے درجے پر فائز ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر طالب علم، علم کے میدان میں اپنے آپ کو منزل مقصود تک پہنچانا چاہے تو اس کے لیے اچھے اخلاق نہایت ضروری ہیں۔
(7) محنت کرنا:
علم حاصل کرنے کےلیے محنت انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح دنیا کا کوئی کام بغیر محنت کے نہیں ہو سکتا تو علم بغیر محنت کے کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ علم کے حصول کےلیے طالب علم کو سخت محنت کرنا پڑتا ہے۔ مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو طالب علم یہ سب کام نہیں کرے گا۔ وہ علم کی بلندیوں کو نہیں پہنچ سکتا۔
(8) دعا کرنا:
طالب علم کےلیے دوران طالب علمی میں اپنے لیے اللہ سے دعا مانگنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ علم بغیر دعا کے ایسا ہے کہ گویا انسان بغیر دماغ کے ہو۔ ایک مشہور قول یہ ہے:
”کہ محنت کرنا اور دعا مانگنا تکبر کی علامت ہے اور دعا مانگنا اور محنت نہ کرنا بیوقوفی کی علامت ہے“
اس لیے ہمیں علم کے حصول کے میدان میں سخت محنت کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا مانگے تاکہ منزل مقصود تک آسانی کے ساتھ کون پہنچ سکے۔
(9) سخاوت کرنا:
طالب علم کا یہ صفت ہو گا۔ کہ اس کا دل غنی ہوگا کیونکہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ:
”جاہل سخی بخیل عالم سے بہتر ہے“
ایک دوسرے حدیث کا مفہوم ہے کہ:
”سخی اللہ کے قریب ہے۔ لوگوں کے قریب ہے۔ جنت کے قریب ہے۔ اور جہنم سے دور ہے۔ اور بخیل آدمی اللہ سے دور ہے۔ جنت سے دور ہے۔ لوگوں سے دور ہے۔ اور جہنم کے نزدیک ہے“
طالب علم کو علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی اساتذہ اور دوستوں پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا چاہیے تاکہ سخاوت کا مادہ پیدا ہوجائے۔
(10) توکل علی اللہ:
طالب علم کےلیے علم کے میدان میں محض اللہ رب العزت پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اگر وہ اسباب پر نظر رکھے گا۔ تو ہو سکتا ہے کہ علم کی اس عظیم نعمت سے محروم ہو جائے۔ اور جو اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالی اس کی ضرورتوں کو اس جگہ سے پورا فرما دیتے ہے کہ اس کا وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے۔
”ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ“
ترجمہ: جو اللہ تعالی پر توکل کرتا ہے اللہ تعالی اس کےلیے کافی ہو جاتا ہے۔
(11) تقویٰ و پرہیزگاری:
طالب علم کو سخت محنت کے ساتھ ساتھ متقی بننا نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر وہ علم کے ساتھ اپنے آپ کو گناہوں سے نہ بچائے تو اس کے علم کا دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں تو عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہو جیسا کہ ارشاد ہے:
”ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم“
ترجمہ: بےشک تم سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔
پس طالب علم کو چاہیے کہ وہ خاص کر دوران طالب علمی اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر طالب علم ان اصولوں کے ساتھ علم حاصل کرے گا تو یہ علم دنیا و آخرت میں اس کی حجت ہوگی۔ اور اگر وہ ان اصولوں کے ساتھ علم حاصل نہ کرے تو خدانخواستہ یہ علم اس پر حجت ہوگی۔