حیلوں کی شرعی حیثیت، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
![]() |
وسیم اکرم حقانؔی |
امتِ مسلمہ کی مجموعی مدت طبعی و فطری عمر سے تجاوز کر چکی ہے تو دین و شریعت کے سینکڑوں مسائل میں حیلہ جوئی کی راہ ہموار کی گئی، اور عوام تو عوام، خواص بھی خواہشاتِ نفسانی کی تسکین کے واسطے حیلہ سازی میں مصروف ہوگئے۔ اشیاء کے ناموں میں تبدیلی سے حقائق کے تغیّر کا ناقابلِ تسلیم و قابلِ رد فلسفہ گھڑ لیا گیا اور تحلیل ما حرّم اللہ اور تحریم ما احلّ اللہ کے مرتکب ہوئے۔ میں اکثر جب ان حیلوں اور جھانسوں پر غور کرتا ہوں تو اصحابِ سبت پر نازل ہونے والے عذاب کے وجوہ و محرکات میں تاویل ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر وہ مستحقِ عذاب محض حیلہ حرام کی وجہ سے ٹھہرے، تو ہم کم از کم قابلِ عتاب تو ضرور ہیں، حالانکہ وہ بھی ظاہری طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہاں اس عمومی تاثر کی نفی ضروری سمجھتا ہوں جو بعض اہلِ شرع نے عام کیا کہ ہر حیلہ شریعت میں ناجائز ہے لیکن تحقیق اس کے برعکس ہے۔ ہر حیلہ ناجائز نہیں بلکہ بعض حیلے جائز بلکہ باعثِ اجر بھی ہے۔ حیلہ کے متعلق مزید بحث سے قبل یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، یہ میری ذاتی رائے ہے جس سے اصولی اختلاف آپ کا حق ہے اور مجھے اس کی قطعیت کا یقین تو کیا ظنِ غالب بھی نہیں۔ باقی اپنے عباراتِ اکابر اور ان کے تصریحات سے جو اخذ کیا، وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
حیلہ کا معنی یہ ہیں کہ مطلب یعنی مقصود کو تدبیر سے حاصل کرنا، جبکہ حیلہ شرعی حرام و گناہ سے بچنے، معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی کام کو حیلہ کہتے ہیں۔ اب حیلہ کی لغوی تعبیر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ جاننا آسان ہے کہ جواز و عدم جواز، حرمت و حلت کا مدار دو چیزوں پر ہوگا۔ اول: مقصد و مطلب کیا ہے؟ دوم: طریقۂ تدبیر کیا ہے؟ ان دونوں کی فقہی و شرعی حیثیت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ حیلہ جائز ہے یا ناجائز؟ حرام ہے یا حلال؟ مقصد و مطلب اگر فاسد و حرام ہو تو طریقۂ تدبیر کی شرعی حیثیت پر بحث کا جواز باقی نہیں رہتا، کیونکہ یہی غیر شرعی اور حرام حیلہ تصور کیا جاتا ہے جس میں حرام و فاسد مقصد کو شرعی تدبیر کی آڑ میں حاصل کیا جاتا ہے جو جائز نہیں۔ اگر مقصد و مطلب جائز و مطلوب ہو تب طریقۂ تدبیر پر غور کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اگر جائز و مناسب ہوا تو حیلہ جائز ورنہ طریقۂ تدبیر پر غور اور اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔ اس کی آسان تعبیر یوں سمجھ لیجئے کہ تدبیر اور مطلوب کبھی دونوں اچھے یعنی مناسب و جائز ہوتے ہیں اور ان کے برتنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہوتی۔ اور کبھی دونوں یا مقصد برا ہو تو اس کے لئے ضرور ممانعت ہے اچھا مقصد اور اس کےلیے اچھی تدبیر قرآن سے ثابت ہے۔
قرآن مقدس میں ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے کسی بات پر اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تو اللہ تبارک و تعالی نے ان دونوں کی آسانی کے لئے انھیں حکم دیا:
"وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث"
ان الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ایوبؑ نے بیماری کی حالت میں ناراض ہوکر بیوی کو مارنے کی قسم کھائی تھی اور اس قسم ہی میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تجھے اتنے کوڑے ماروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرما دی اور حالت مرض کا وہ غصہ دور ہوگیا جس میں یہ قسم کھائی گئی تھی، تو ان کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتا ہوں تو خواہ مخواہ ایک بےگناہ کو مارنا پڑے گا، اور قسم توڑتا ہوں تو یہ بھی ایک گناہ کا ارتکاب ہے۔ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح نکالا کہ انھیں حکم دیا کہ ایک جھاڑو لو جس میں اتنے ہی تنکے ہوں جتنے کوڑے تم نے مارنے کی قسم کھائی تھی، اور اس جھاڑو سے اس کو بس ایک ضرب لگا دو، تاکہ تمہاری قسم بھی پوری ہوجائے اور اسے ناروا تکلیف بھی نہ پہنچے۔
یہ حیلہ تھا لیکن اب یہاں پر اس بحث نے زور پکڑا کہ یہ رعایت و حکم عام ہے یا فقط ایوب علیہ السلام کیلئے تھا؟ بعض فقہاء اس رعایت کو حضرت ایوبؑ کےلیے خاص سمجھتے ہیں، اور بعض فقہاء کے نزدیک دوسرے لوگ بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پہلی رائے ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اور ابوبکر جَصّاص نے مجاہد سے نقل کی ہے۔ اور امام مالکؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ دوسری رائے کو امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام زفرؒ اور چند دیگر فقہاء نے ترجیح دی کہ اگر کوئی شخص کسی کو سو قمچیاں مارنے کی قسم کھالے اور بعد میں سو قمچیاں الگ الگ مارنے کے بجائے تمام قمچیوں کا ایک گٹھا بنا کر ایک ہی مرتبہ مار دے تو اس سے قسم پوری ہوجاتی ہے۔ اسی لئے حضرت ایوبؑ کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن فقہ حنفی کے مشہور محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللّٰہ نے لکھا ہے کہ اس کےلیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس شخص کے بدن پر ہر قمچی طولاً یا عرضاً ضرور لگ جائے۔ دوسرے یہ کہ اس سے کچھ نہ کچھ تکلیف ضرور ہو، اگر اتنے ہلکے سے قمچیاں بدن کو لگائی گئیں کہ بالکل تکلیف نہ ہوئی تو قسم پوری نہیں ہوگی۔
اب یہاں ایک انتہائی دلچسپ شرعی مسئلہ سمجھ لیجئے کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے ایسے زانی پر حد جاری کرنے کے معاملے میں بھی اس آیت کا بتایا ہوا طریقہ استعمال فرمایا ہے جو اتنا بیمار یا اتنا ضعیف ہو کہ سو کوڑوں کی مار برداشت نہ کرسکے۔ علامہ مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں احکام القرآن سے یہ نقل کیا کہ علامہ ابوبکر جصاص نے حضرت سعید بن عبادہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بنی ساعد میں ایک شخص سے زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ ایسا مریض تھا کہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گیا تھا۔ اس پر نبیﷺ نے حکم دیا کہ:
"خذوا عثکالاً فیہ مأۃ شمراخ فاضربوہ بھا ضربۃ واحدۃ"
”کھجور کا ایک ٹہنا لو جس میں سو شاخیں ہوں اور اس سے بیک وقت اس شخص کو ماردو“۔
اب فقہاء کے ان دو شرائط -جن کا اوپر تذکرہ کیا- کا یہاں بھی ہونا ضروری ہے کہ ہر شاخ یا ہر تنکا کچھ نہ کچھ مجرم کو لگ جانا چاہیے یعنی طولاً او عرضاً، اور ایک ہی ضرب سہی، مگر وہ کسی نہ کسی حد تک مجرم کو چوٹ لگانے والی بھی ہونی چاہیے یعنی محض چھو دینا کافی نہیں ہے بلکہ مارنا ضروری ہے۔
اب یہ واضح ہوگیا کہ کسی نامناسب یا مکروہ بات سے بچنے کیلئے کوئی شرعی حیلہ اختیار کیا جائے تو وہ جائز ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت ایوبؑ کے واقعہ میں قسم کا اصلی تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی زوجہ مطہرہ کو پوری سو قمچیاں ماریں، لیکن چونکہ ان کی زوجہ مطہرہ بےگ ناہ تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود حضرت ایوبؑ کو ایک حیلہ کی تلقین فرمائی اور یہ تصریح کردی کہ اس طرح ان کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اس لئے یہ واقعہ حیلہ کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے حیلے اسی وقت جائز ہوتے ہیں جبکہ انھیں شرعی مقاصد کے ابطال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ اور اگر حیلہ کا مقصد یہ ہو کہ کسی حقدار کا حق باطل کیا جائے، یا کسی صریح فعل حرام کو اس کی روح برقرار رکھتے ہوئے اپنے لئے حلال کرلیا جائے تو ایسا حیلہ بالکل ناجائز ہے۔
اس حقیقت سے منہ موڑنا ممکن نہیں کہ قرآن و حدیث میں جائز اور نا جائز دونوں قسم کے حیلوں کا ذکر موجود ہے۔ ایک طرف حضور نبی کریمﷺ نے یہودیوں پر لعنت فرمائی کہ اللہ تعالی نے ان پر چربی حرام کی تھی، لیکن انھوں نے اسے پگھلا کر فروخت کرنا شروع کر دیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر شدید سرزنش کی اور اس حیلے کو لعنت کا سبب قرار دیا گیا۔ قرآن کریم میں آپ نے اصحاب السبت کا واقعہ پڑھا ہوگا کہ ان کےلیے سنیچر کے دن مچھلیوں کا شکار حرام کیا گیا تھا اور ان کی آزمائش کےلیے سنیچر کے دن مچھلیاں بہت آتی تھیں، اور دوسرے دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے سنیچر کے معاملے میں زیادتی کی۔ ان لوگوں پر عذاب نازل ہوا۔ لیکن یہاں مفسرین نے جو انتہائی اہم بحث چھیڑی ہے وہ قابلِ غور ہے۔ بعض تفسیری روایتوں میں یہ منقول ہے کہ وہ لوگ سنیچر کے دن جال ڈال کر مچھلیوں کو بند کرتے لیکن اُس دن پکڑتے نہیں تھے، بلکہ جب سنیچر کا دن ختم ہو جاتا تو اُس وقت پکڑتے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ انھوں نے حرام کو حلال کرنے کےلیے یہ ایک حیلہ بنایا تھا، اور اس پر عذاب نازل ہوا۔ البتہ دوسرے بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے ابتداء تو اس حیلے سے کی تھی، لیکن بعد میں خاص سنیچر ہی کے دن شکار شروع کردیا، اس پر عذاب نازل ہوا۔ اور بعض مفسرین مثلاً امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ عذاب حیلہ کرنے کی وجہ سے نہیں آیا، بلکہ ان کےلیے سنیچر کے دن مچھلیوں کو روکنا بھی اسی طرح حرام تھا جیسے انکو پکڑنا، اس لئے ان پر عذاب آیا۔
اسی طرح قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو اپنے پاس روکنے کےلیے یہ حیلہ کیا کہ اپنا پیالہ اُن کے سامان میں خود ہی رکھوا دیا۔ اس تدبیر کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اپنی طرف منسوب کیا کہ:
"کذلک کدنا ليوسف" (سورۂ يوسف)
”یعنی: ہم نے یوسف کےلیے اسی طرح تدبیر کی“
ام المؤمنین حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ: إِحْدَى السُّنَنِ أَنَّهَا عُتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ". وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ: "أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ؟" قَالُوا: بَلَى وَلَكِنَّ ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ قَالَ: "هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلنَا هَدِيَّة".
ام المؤمنین سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: بریرہؓ کی وجہ سے تین احکام شریعت کا پتہ چلا، انھیں آزاد کیا گیا تو انھیں اپنے خاوند کے متعلق اختیار دیا گیا، اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” ولاء (حق وراثت) آزاد کرنے والے کو ملے گا۔‘‘ اور رسول اللہﷺ گھر تشریف لائے تو ہنڈیا میں گوشت ابل رہا تھا، پس روٹی اور گھر کا سالن آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ” کیا میں نے ہنڈیا میں گوشت نہیں دیکھا؟ اہل خانہ نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور دیکھا ہے، لیکن وہ گوشت بریرہؓ کو صدقہ میں دیا گیا ہے، جبکہ آپ صدقہ تناول نہیں فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا: ” وہ اس کےلیے صدقہ ہے جبکہ ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
اس حدیث شریف سے علمائے کرام نے یہ قاعدہ ثابت کیا کہ قبضہ بدل جانے سے مال کا حکم بدل جاتا ہے۔ صدقہ کا گوشت جب تک بریرہؓ کے قبضے میں نھیں آیا تھا اس کا حکم یہی تھا کہ وہ صدقہ کا مال ہے۔ اور جب بریرہؓ نے وصول کرلیا تو اب وہ اس کی مالک بن گئیں اور جب مالک ہوگئیں تو وہ اپنی طرف سے جس کو بطور تحفہ دیں لینا بھی جائز اور کھانا بھی جائز اگر چہ مالدار ہی کیوں نہ ہو۔
اب چند امور قابلِ غور ہیں…
(جاری ہے)
نوٹ: اس سلسلے کے مزید قسطیں نمبر وار شائع ہوں گے۔