ایصالِ ثواب
الحمدللہ رب العالمین، والصلوٰة والسلام علٰی سید الانبیاء والمرسلین، اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
قال اللہ تعالٰی فی القرآن الکریم:
”وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاتَّبَعَتۡهُمۡ ذُرِّيَّتُهُمۡ بِاِيۡمَانٍ اَلۡحَـقۡنَا بِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَمَاۤ اَلَـتۡنٰهُمۡ مِّنۡ عَمَلِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍؕ ۞“
ترجمہ:
”اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔
قرآن کریم سے سورہ طور کی جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس سے ایصالِ ثواب کا ثابت ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا ’’ایصالِ ثواب‘‘ کہلاتاہے۔ جیسا کہ لفظوں سے ظاہر ہے۔ شریعت کے حکم کے مطابق یہ جائز اور اچھا عمل ہے۔ اس کا ثبوت احادیث سے بھی مِلتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے:
”حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتیں تو صدقے کا کہتیں، پَس اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اُنھیں ثواب پہنچے گا؟ فرمایا: ’’ہاں“۔
اور سنن ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اُنھوں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم! میری ماں کا انتقا ل ہو گیا ہے، اُ ن کےلیے کون سا صدقہ افضل ہے؟ح ضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’پانی‘‘۔ تو حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے۔
انسان اپنے کسی بھی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے شخص کو پہنچا سکتا ہے جیسے نماز، روزہ، صدقہ و خیرات وغیرہ اور اسی عمل سے نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں، گناہ گاروں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اہلِ قبر سختی یا عذاب میں مبتلا ہوں تو نجات مل جاتی ہے، یا اس میں تخفیف ہوجاتی ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے چاہنے سے ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کمی نہیں ہوتی، اس کے عمل کا اجر اس کےلئے بھی باقی رہتا ہے بلکہ ان سب کی گنتی کے برابرنیکیاں ملتی ہیں جن کو اس نے ایصالِ ثواب کیا ہوتا ہے۔
انفاس العارفین میں ہے:
شاہ ولِیُّ اللہ مُحدّث دہلوی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ نذر و نیاز، چالیسواں، تیجہ، دسواں ایصالِ ثواب کے قائل تھے، لکھتے ہیں:
’’شاہ عبدُ الرّحیم صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہﷺ کے یومِ وصال میں ان کے پاس نیاز دینے کےلیے کوئی چیز میسّر نہ تھی۔ آخرکار کچھ بُھنے ہوئے چنے اور گُڑھ پر نیاز دی۔ رات میں نے دیکھا کہ نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس انواع و اقسام کے کھانے حاضر ہیں اور ان میں وہ گُڑھ اور چنے بھی ہیں۔ آپ نے کمالِ مُسرّت واِلتِفات فرمایا اور انھیں طلب فرمایا اور کچھ آپ نے تَناوُل فرمایا اور کچھ آپ نے اَصحاب میں تقسیم کردیا۔
ایصالِ ثواب کرنے کا طریقہ:
آج کل مسلمانوں میں خصوصاً کھانے پر ایصالِ ثواب یعنی فاتحہ کا جو طریقہ رائج ہے وہ بھی بہت اچھا ہے، جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے کھانے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کو سامنے رکھ لیں اب اعوذ اور بسمِ اللّٰہ شریف پڑھ کر قُلْ یٰاَیُّھَاالْکٰفِرُوْن ایک بار، قُلْ ھُوَاﷲشریف تین بار، سورۂ فلق، سورۂ ناس اور سورۂ فاتحہ ایک ایک بار پھر الٓمّٓ تا مُفْلِحُوْن پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھیں:
(۱) وَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ لَآاِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠ (البقرة: ۱۶۳)
(۲) اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(پ ۸، الأعراف: ۵۶)
(۳) وَ مَااَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(پ ۱۷، الأنبياء: ۱۰۷)
(۴) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(پ ۲۲، الأحزاب: ۴۰)
(۵) اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (پ ۲۲، الأحزاب: ۵۶)
اب درود شریف کے بعد پڑھے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَالْحَمْدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۸۲)۔
وما علینا الا البلغ المبین