![]() |
| نظام فکر، سماج |
"نظامِ فکر" پر "سماجی وجود" کے امکانات؛ افلاطون، ارسطو، الفارابی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی "افکار" کی روشنی میں!
ماہر آزادیات، ڈاکٹر، محقق
ابو نصر محمد الفارابی (870ء) کا "نظریہ وحدت"، "اسلامی سماج" (دولت عباسیہ) کے لیے اُس "نظریہ وحدت" سے مواد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اندازِ فکر سے مختلف ہے جو نظریہ افلاطون (387/428ق م/347/348 ق م) اور ارسطو (384ق م/322 ق م) نے "یونانی سماج" کے لیے پیش کیا تھا، اصل بات یہ ہے کہ الفارابی عین انہی مواد اور احوال میں اپنی طرف سے اپنی جدا نظر اور اپنا زاویہ نظر سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افلاطون اور ارسطو کے نظریہ تَوحُّد کے "بسط و ضبط" میں کوئی کمی و اضافہ کیے بغیر الفارابی صرف "نقطہ نظر" کے تغیر سے اپنی پسند کے اہداف اور مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں افلاطون کی وہ "کلید و اساس" جس سے سماجی مشکل دور ہو، "عدل" کے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یعنی انسانی زندگی میں درپیش احوال کے توازن کے لیے افلاطونی کلید، عدل کی نظر ہے، کہ ہر حالت اور ہر رفتار میں توازن اور اعتدال پسندی کا رجحان عام کیا جائے، یعنی ہر صورت میں استبداد نہ ہو، اور "اہلیت ،صلاحیت اور عملیت" میں توافق ہو تضاد نہ ہو، اور سماجی ڈھانچہ میں افراد کا، عزت و وقار کے ساتھ مصیر کا تعین یقینی ہو۔ افلاطون کے "نظریہ توحد" کے لیے اسی عنصرِ عدل و توازن سے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں، ایک نتیجہ یہ ہے کہ سماج اور مجتمع میں اس کے قیام و انصرام کے لیے حکومت اور نظام کی ضرورت پیش آتی ہے جو اس کے لوازمات اور اطراف کا احاطہ کرکے نظم و نسق کا اسلوب برقرار رکھ سکے۔ اور پھر یہی دولت و حکومت "مدینہ فاضلہ"/بہتر و مثالی سماج" کے لیے اقدامات کریں گے۔ اور مدینہ فاضلہ وہ ہے جس کا سربراہ خُبراء/فلاسفہ اور حکماء ہوتے ہیں، جو "طبع و تربیت" دونوں کے وسیلہ سے گزر کر آئے ہو۔ اس کا مزاج بھی فاضلانہ اور تربیت بھی فاضلانہ ہو، اگر غیر فاضل مزاج اور طبیعت کا مالک صرف تربیت سے فاضل بن چکا ہے، ذات میں نہیں تو افلاطون کے نزدیک یہی مدینہ فاضلہ کے سربراہی کا اہل نہیں ہوسکتا۔
اس کے بارے میں افلاطون کا قول ہے:
"جب تک فلاسفہ حکام نہ ہو، اور جب تک حکام غیر فلسفی بن کر آتے ہیں، نظامِ عدل اور قیامِ عدل کا عملی مظاہرہ ممکن نہیں۔ ہاں افلاطون کا اس کے بارے میں یہی اعتراف بھی ہے کہ اس مثالیت کا عملی شکل اور ثبوت اس زمینی حیات میں ممکن نہیں۔ کیونکہ فلاسفہ کم پیدا ہوتے ہیں، جس شرح اور تعداد کے ساتھ ان خبراء اور فلاسفہ کی افزائش کم ہوتی ہے، اور جس مقدار میں ہو بھی، تو عوام ان کا اپنے اوپر حاکم و سربراہ بنانے اور انتخاب کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتی"۔
لہذا افلاطون کا اس قسم مثالی سماج کا قیام آسمانوں میں، عالم مَثل، اور "کامل موجودات" کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ موجودات کی تکمیل اور تفخیم سے افلاطون ایک "کامل ارتقاء" کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس قسم نظام کے لیے بظاہر موزوں جگہ آسمان نظر آتا ہے، یا عالم مثل اور اگر اس کرہ ارض پر ہو تو اشیاء اور اذہان کا کامل ارتقائی نوعیت و شکل موجود ہو، تب جاکر امکان کی صورت بن سکتی ہے۔
ارسطو نے اس نوعیت کے "مدینہ فاضلہ" کی سلبیت اور عدم امکان کی دوری کو اپنے جدا زاویہ نظر سے پرکھتے ہیں۔ ارسطو کے نزدیک مثالی نظام عدل و حکومت کے لیے کلیدی عنصر "اخلاق اور سیاست" ہیں۔ یعنی ذات اور نفس کی تدبیر و منصوبہ بندی اور علاقے و شہر کی تدبیر و منصوبہ بندی۔
ارسطو کہتے ہیں کہ:
یہ اس لیے کہ انسان مزاج اور طبیعت کے حوالے سے آباد کاری، معاشرت اور مدنی بالطبع ہے، وہ جدا اور الگ تھلگ نہیں رہ سکتا، بلکہ وہ کسی سماجی ڈھانچہ میں رہ کر زندگی بسر کرے گا۔ لہذا اس قسم کی حالت کے لیے "اخلاق و سیاست" کی ضرورت پیش آتی ہے، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی لوگ نہ سماج قائم کرسکتے ہیں اور نہ کوئی نظام!
اخلاق اور سیاست کی سمجھ بوجھ کے بعد وہ خود بخود عدل کے قائل بن سکتے ہیں، جب وہ عدل کا بالطبع اقرار کریں گے تو آگے جاکر وہ دستور، آئین اور قوانین کے وضع کرنے کے لیے شعوری طور پر تیار ہو جائیں گے، اور پھر ان قوانین اور ضوابط کے ذریعے قیام عدل ممکن بن جاتا ہے، جو مدینہ فاضلہ کی بنیاد ہے۔
ارسطو کا خیال ہے کہ "حاکم فلسفی" کی بجائے "دستور اور قانون عدل" کا سہارا لیا جائے، کیونکہ اگر لوگوں کو ایک فلسفی اور دستور و قانون کے درمیان اختیار دیا جائے کہ ان دو میں سے ایک کا انتخاب کریں تو لوگ ضرور دستور وآئین کو ترجیع دیں گے کیونکہ یہ ان کی نظروں میں ابدی اور غیر متغیر ہوتے ہیں۔ جہاں تک فلسفی ہے وہ انسان ہونے کے ناطے تغیر و تبدل کا شکار رہ سکتا ہے۔
جہاں تک اس ضمن میں الفارابی کا تعلق ہے، وہ افلاطون اور ارسطو کی آراء میں "تداخل" سے کام لیتے ہیں، اور یہی تجربہ وہ ایک اسلامی سماج میں کرنا چاہتے ہیں۔ الفارابی اپنی فکر میں ابتدائی افلاطونی عصر سے ہوکر گزرتے ہیں اور اپنی نوشت "مبادی آراء" اور "سیاست مدنی" اور "فراب، بخارا" میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ جس میں وہ خود اپنی طرف سے کچھ اضافہ یا "دخل اندازی" کرنا نہیں چاہتے، بلکہ وہ اس کا صرف ایک اسلامی سماج و معاشرت میں ایک تجرباتی مراحل میں دیکھے جاتے ہیں۔ وہ عصرِ افلاطونی اور عصرِ اسلامی میں کوئی فصیل یا انقطاع کھڑی کیے بغیر ایک فکری تسلسل کے دوام و انصرام پر کاربند نظر آتے ہیں۔ اور اس کے باوجود وہ اس بعیر میں صرف اسلامی منظور نظر سے دیکھنے اور سوچنے اور اسلامی فکر کے تعلق کے قیام کے زاویہ سے دیکھنے کے متلاشی ہیں۔ اور اس پر الفارابی نے اپنی اصطلاح کا استعمال کیا، وہ "مدینہ فاضلہ" کی بجائے "ملت فاضلہ" کی بات کرتے ہیں۔
الفارابی یہاں یونان کے مدینہ فاضلہ اور اپنی "ملت فاضلہ" میں فرق بھی واضح کرتے ہیں۔ الفارابی کہتے ہیں کہ ملت فاضلہ کی تاسیس خود ساختہ یعنی نفس کی طرف سے نہیں بلکہ "رائیسِ اول" کی طرف سے ہوگی، اور مدینہ کا پہلا سربراہ "رائیس اول" ہی ہونا چاہیے۔ اور رائیس اول تمام امور و شؤن اور جزاء کو منظم شکل میں مرتب کریں گے۔ الفارابی کے نزدیک رائیس اول ہر جماعت کا اپنا اپنا منتخب کردہ سربراہ ہوتا ہے۔ اور یہی انتخاب الفارابی کے نزدیک خدمت اور سربراہی دونوں کا وظیفہ ہے۔ جس میں رتبہ خدمت بھی ہے اور رتبہ رئاسہ بھی ہے۔ اور یہی الفارابی کی نظر میں قیام عدل بھی ہے اور لوگوں کے حقوق، مراتب اور منازل کی تقسیم و تحفظ بھی (انزال الناس منازلھم)۔
اس طریقہ سے سماج اپنے تمام تر عناصر و اجزاء اور تالیفات کے ضمن میں مستحکم اور مربوط رہے گا۔ الفارابی اس ضمن میں وہ امور و دواعی جو طبعی خواص و موجودات سے رونماء ہوتے ہیں اور وہ امور، دواعی جو "الہی تناظر" سے رونماء ہوتے ہیں، کا آپس میں ایک عالمگیر توافق و تعانق دیکھنا چاہتے ہیں۔ "شبیہِ وجودِ طبعی" اور "شبیہِ وجودِ الہی" دونوں مراتب کا توازن و خیال برقرار رکھتے ہیں۔ اور یہاں سے "مادہ اولی" اور "عناصر اربعہ" تک پہچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو مخلوقات کا پہلا اور ادنی درجہ شمار ہوتا ہے۔ الفارابی کا اس مقام پر تفکیری تناظر "الالہ" یعنی مؤسس اول سے مادہ اولی و عناصر اربعہ کی طرف ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد (نومبر، 1888ء/ 22 فروری 1958ء) نے اس مقام پر اپنا زاویہ نظر، افلاطون، ارسطو اور الفارابی سے اپنی تفکیری تناظر میں "مادہ اولی، عناصر اربعہ سے "الالہ" کی طرف ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد "شبیہ وجودِ طبعی" اور "شبیہ وجود الہی" میں توافق و انصرام پیدا کرنے کے لیے اطراف کی "بُعد" سے زیادہ "قربت" پر نگاہ رکھتے ہیں۔ جس کو مولانا ابوالکلام آزاد کے نظام فکر میں "مادہ میں خدا کی تلاش" اور "خدا میں مادہ کی تلاش" کے اسلوب و انداز کا فرق سامنے آ جاتا ہے۔
مولانا فرماتے ہیں:
"قرآن نے انسان کے لیے "دینی عقائد و اعمال" کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی بنیاد تمام تر "رحمت و محبت" ہی پر رکھی ہے، کیونکہ وہ انسان کی "روحانی زندگی" کو کائنات فطرت کے عالم گیر کارخانے سے کوئی الگ اور بے تعلق چیز قرار نہیں دیتا۔ مثلا وہ کہتا ہے کہ "خدا" اور اس کے بندوں کا رشتہ "محبت کا رشتہ" ہے۔ احادیث و آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو "خدا" سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے "بندوں" سے محبت کرے"۔
(مولانا ابوالکلام آزاد، ترجمان القران جلد سوم)
اور اخلاق کی تعلیمی و تربیتی نفسیات کے بارے میں مولانا آزاد کے الفاظ یہ ہیں:
”تعلیمی نظام فکر کو "اقتصاد" (ضرورت) پر استوار ہونا چاہیے نہ کہ "اسبقیت" (مقابلہ) پر"۔
یونان نے "مدینہ الٰہیہ یا الہی سماج" کی بنیاد اور نمونہ انسانی و بشری طبیعت اور احوال پر ڈیزائن کیا، جس میں وہی فرح، غضب اور انسانی عادات اور عواطف کا الہی سماج پر بھی وہی رنگ و روغن چھڑانے کی کوشش کی۔ لہذا الہی سماج کے لیے ایسے "الالہ" کا انتخاب کیا جو انسانی طبع و طبیعت کے ماتحت تھا۔ لیکن الفارابی اس الہی سماج میں انسانی نمونے کو "الٰہیت" میں دخل دینے کی بجائے "عالم سماء" کی اوصاف اپناتے ہیں۔
اس مناسبت سے مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے یہ ہیں:
"انفرادی اور قومی اتحاد اور تنظیم کے لیے "قومی دماغ" اور فکری وحدت پر زور دیتے ہیں۔ مولانا آزاد بدلتی ہوئی دنیا کے لئے "فکری تغیرات" بنیاد مانتے ہیں، آزاد کے بقول ترقی اور تمدن کے سرچشمے "دماغوں" میں موجود ہیں۔ اس جوہر کا مسکن دل/دماغ ہے، اور اس کی آبیاری صرف اور صرف "حسن و جمال" کی روپ میں "خدا پرستی" سے ممکن ہے"۔
ارسطو کی تشریح جس میں عدل کی "اخلاق اور سیاست" کے ضمن میں کی ہے، سیاست کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نقطہ نظر یہ ہے:
"مولانا آزاد "سیاسیات" کے بعیر میں ہر ایک فرد کے لیے بیک وقت "انفرادی دماغ" اور "جماعتی دماغ" کے قائل ہیں۔ سیاست کے میدان میں فرد ایک دماغ کا نہیں بلکہ دوہرے دماغ کا حامل ہوتا ہے۔ آزاد کے نزدیک عالمی تنازعات کا سبب انسان کے دماغ میں نہیں بلکہ انسان کے جیب میں ڈھونڈنا چاہیے۔
مولانا آزاد کہتے ہیں: کہ انفرادی دماغ کا جماعتی دماغ میں کوئی اثر نہیں رہتا، اب اگر جماعتی دماغ افراد یا فرد کے نظام فکر سے مستفاد ہے، پھر جماعتی دماغ کی وہی کارکردگی رہے گی، انفرادی دماغ کی نہیں۔ اب اگر اس جماعت میں "افلاطون اور مجنون" دونوں شریک ہیں، اور جماعتی دماغ کی تالیف میں زیادہ دخل افلاطون کا ہے تو اب اسی جماعتی ڈھانچہ میں موجود مجنون بھی افلاطون تصور کیا جاتا ہے، اگر بات بالعکس ہے، تو جماعتی ڈھانچہ میں افلاطون بھی مجنوں تصور ہوگا۔
الفارابی نے فلسفہ یونانی میں مدینہ فاضلہ سے اپنی ملت فاضلہ کو "فلسفی حاکم" کی بجائے "النبی" جو "دین" کی تاسیس کرتے ہیں، "رائس اول" ہوتا ہے، فلسفی کسبی اور نبی غیر کسبی ہوتے ہیں۔ اور اس کے رئاسہ و سربراہی کے تسلسل میں شروط اور تحدیدات کے دائرے میں "ثوانی خلفاء" کا تصور دیتے ہیں اور اوصاف و شروط کے ناپید اور توافر کی قلت میں "تشارک" کا تصور دیتے ہیں، جس میں مختلف افراد کے ضمن اوصاف و اہلیت و صلاحیت کو جمع کرکے ایک جماعت، ادارہ اور نظام کے تحت سب کچھ یقینی بنائیں گے۔ جس کو مولانا ابوالکلام آزاد ایک "جمہوری و عمومی طرز تعمل" کے ضمن میں دیکھتے ہیں۔ یہاں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے نظام فکر میں جو سماجی ڈھانچہ نظر آتا ہے وہ اس تناظر میں "مذہبی ہونے سے زیادہ "ایمانی" ہوتا ہے اور "اعلی درجے کے ترقی یافتہ مادی نوعیت میں "الہی" ہوتا ہے۔
اس قسم سماجی ڈھانچہ کی وہی افلاطونی "اوصاف، اہلیت، صلاحیت اور عملیت" میں سے "عملیت" کے پہلو کے امکانی یا عملی استفادہ کے لیے "تنظیم" کے "قطع و برید" سے بچنے کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد اپنے الفاظ کا کچھ یوں اظہار فرماتے ہیں:
"طالب علمی کے زمانے سے فلسفہ میری دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ دلچسپی برابر بڑھتی گئی۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ عملی زندگی کی تلخیاں گوارا کرنے میں فلسفہ سے کچھ زیادہ مدد نہیں مل سکتی۔ یہ بلاشبہ طبیعت میں ایک طرح کی رواقی بے پروائی پیدا کردیتا ہے، اور ہم زندگی کے حوادث و آلام کو عام سطح سے کچھ بلند ہوکر دیکھنے لگتے ہیں، لیکن اس سے زندگی کے طبعی انفعالات کی گھتیاں سلجھ نہیں سکتیں۔ یہ ہمیں ایک طرح کی تسکین ضرور دے دیتا ہے، لیکن اس کی تسکین سر تا سر سلبی تسکین ہوتی ہے، ایجابی تسکین سے اس کی جھولی ہمیشہ خالی رہی۔ یہ فقدان کا افسوس کم کردیگا، لیکن حاصل کی کوئی امید نہیں دلائیگا۔ اگر ہماری راحتیں ہم سے چھین لی گئی ہیں، تو فلسفہ ہمیں کلیلہ و دمنہ کی دانش آموز چڑیا کی طرح نصیحت کریگا: لا تاس علی ما فات (جو کچھ کھو چکا، اس پر افسوس نہ کر) لیکن کیا اس کھونے کے ساتھ کچھ پانا بھی ہے، اس بارے میں وہ ہمیں کچھ نہیں بتلاتا، کیونکہ بتلا سکتا ہی نہیں۔ اور اس لیے زندگی کی تلخیاں گوارا کرنے کے لیے صرف اس کا سہارا کافی نہ ہوا"۔
(غبار خاطر - مولانا ابوالکلام آزادؒ)
افلاطون کے نزدیک "ماحول و گرد و نواح اور درپیش واقعات" سے "فکر و نظر" تشکیل پاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فکر ماحول کا تابع ہے، ماحول اور واقعات جس نوعیت کی ہو اسی شکل و صورت میں افکار بھی مرتب ہوتی ہیں۔ اگر ماحول تعمیری ہے، پرامن ہے، فلاحی ہے تو وہاں پھولنے پھلنے والی فکر، ذھن اور خیالات بھی تعمیری نوعیت کے ہونگے۔ اگر ماحول ویران ہے، خراب ہے، بے چین ہے، بے روزگار ہے تو پھر یہاں جو فکری اور ذھنی ڈھانچہ بنے گا وہ بھی اسی ویران ماحول کی شکل میں بنے گا۔
مولانا آزاد کے نزدیک، ماحول، واقعات اور حوادث اور گرد و نواح دراصل "فکری نوعیت" کی عکاسی ہے۔ یعنی آزاد کے نزدیک ماحول فکر کا تابع ہے۔ فکر، خیال اور سوچ جس نوعیت کی ہو اسی شکل و صورت میں ماحولیات، واقعات بھی رونما ہونگے۔ اگر فکر تعمیری ہے، مثبت ہے، پرامن ہے، کامیاب ہے تو وہاں کے اردگرد اور ماحول بھی تعمیری اور مثبت قسم کے رہیں گے۔ اگر فکر جاہل ہے، ویران ہے، منفی اور خراب ہے تو اس طرح انسانوں پر مشتمل مجمع، شہریت اور تمدنی ڈھانچہ بھی غیر تسلی بخش ہوگا۔ انقلاب ماحول کی طرف سے ہو یا فکر کی طرف سے لیکن اس کا سرچشمہ یہی دو دھارے رہے ہیں۔ لہذا ماحولیات میں تحول پیدا کرنے کے لیے فکر اور سوچ میں انقلاب پیدا کرنا ہوگا، تب جاکر ہم ایک فلاحی اور پرآمن گرد و نواح اور ماحول کو تشکیل دے سکتے ہیں۔
زمان و مکان کی تحویل میں تحول پذیری کے رجحان کے بارے میں مولانا آزاد کی فکری و عملی آزادی و حریت پسندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رطب اللسان ہیں:
"انسان جو اکثر انفعال و تاثر ہے، جس کے دامنِ کسب کے لیے ہستی کا ایک ایک ذرہ کانٹا ہے، جو دنیا میں صرف کھوتا ہے، دیتا ہے، لٹاتا ہے اور اٹکتا ہی ہے اور باہر اثر و فعل کا جب کوئی غبار اڑتا ہے تو اس کے ایک ایک ذرے کو اپنے دامن و آستین میں محفوظ کرتا ہے۔ غور کرو اس کے لیے یہ دعوتِ تجدید، آرزوئے تحول، یہ صدائے تاسس، یہ آگاہی، یہ دعوت حقائق، یہ خود بینی اور سچائی کی طلب جو سر سے لے کر پانوں تک اسے یکسر بدل دینا اور نیا بنا دینا چاہتی ہے، جو اسے ہر محبوب و مالوف شے سے چھڑاتی اور ہر ایسی چیز سے جوڑنا چاہتی ہے جو اس کی نظروں میں اتنی ہی مبغوض ہے جتنی پہلی محبوب تھی، کیسی مشکلوں کی پکار، کیسی سختیوں کی درخواست، اور کس درجہ صعوبتوں اور مصیبتوں کی دعوت ہے؟"۔
•~مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ•
(ختم شد)
