عقیدۂ توحید
عقیدۂ توحید اسلام کی بنیاد ہے، پورے قرآن مجید کی دعوت کا بنیاد ہی توحید ہے۔ جب بھی عقیدۂ توحید کی بات آتی ہے تو اللہ رب العزت کو ہر عیب و نقص سے پاک معبودِ واحد و واجب الوجود مانتے ہیں۔ ہمیں عقیدۂ توحید بیان کرنے کو شان رسالت میں تنقیص کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عقیدۂ رسالت کا ذکر آئے تو جملہ انبیاء و رسل علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور حضور جانِ جاناںﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں۔
توحید کا مطلب اللہ جل شانه ایک ہے، وہ وحدہ لا شریک ہے، تمام کائنات کا خالق، مالک، رازق اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسروں سے بے نیاز ہے، اس کے ہمسر اور برابر کوئی نہیں۔ دین اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کےلیے سب سے پہلے آپ کو توحید کے دروازے سے اندر آنا ہوگا۔ توحید کو سمجھنے کےلیے قرآن و حدیث کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ نصوص میں صراحت کیساتھ توحید کی اہمیت اور شرک کی قباحت موجود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ"
”تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وه بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے“
توحید اسلام کا بنیاد اور مرکزی ستون ہے جس کے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں۔ مگر انسانوں کی سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کے اس پیغام کو ہمیشہ بھلا دیتے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرکے عقیدۂ توحید کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔
توحید کے راستے میں کفر و شرک دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔
شرک کیا ہے؟
جان لیجیے کہ اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے۔ اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارنا، یا بعض وہ عبادتیں جو اﷲ رب العالمین کےلئے خاص ہیں انھیں کسی دوسرے کےلیے ادا کرنا، غیرالله کی دعا و پکار، دعا میں مشرکانہ وسیلے، فرقے بنا کر اللہ کے دین میں قانون سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینا، وغیرہ سب اعمال شرک کے ہیں۔
شرک کرنے والوں کا انجام بہت عبرتناک اور کبھی معاف نہ ہونے والا ہے۔
کسی کا بھی عقیدۂ توحید میں ذرا سی بھی خلل آجائے تو وہ شخص کیوں نہ کتنا ہی اعمال صالحہ کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی پوری زندگی کے اعمال برباد (ختم) کر دے گا اگر چہ وہ کوئی نبی ہی کیوں نہ ہو۔
چنانچہ سورة الانعام آیت نمبر 88 میں اللہ تعالی نے 18 نبیوں کے نام لے کر ذکر کیا ہے کہ اگر وہ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کیے ہوتے وہ سب ضائع ہوجاتے۔
سورۂ زمر آیت 65 میں رسول اللہﷺ سے اللہ تبارک و تعالیٰ مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:
"اے پیغمبر! آپ کی طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور آپ سے پہلے نبیوں پر بھی یہ وحی بھیجی گئی۔ ہر کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔"
شرک اتنا بڑا گھناؤنا اور سنگین جرم ہے کہ توبہ کیے بغیر معاف نہیں کیا جاتا۔ اللہ رب العزت سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ:
"بے شک اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرتا، اس کے سوا جو چاہے جس کےلیے چاہے معاف کرتا ہے۔"
شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور جو شخص اس حال میں مر گیا کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے والا ہو اس پر جنت حرام ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
شرک ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جس میں اللہ کی ذات و صفات و خصائص میں مخلوق کو خالق کے مشابہ اور برابر قرار دیاجاتا ہے، حالانکہ مخلوق ہرلحاظ سے خالق کی محتاج ہے نہ کہ اس کے برابر۔ اسی وجہ سے شرک سب سے بڑا ظلم ہے جیسا کہ ﷲتعالیٰ نے فرمایا:
"إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"
”شرک سب سے بڑا ظلم ہے“
﴿سورۂ لقمان: 13﴾
لہذا اس انجامِ بد سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ انسان کو توحید اور شرک کی پہچان ہو۔
اس کائنات کو تن تنہا اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، نہ زمین میں اور نہ ہی آسمانوں میں اس کا کوئی شریک ہے۔ اللہ ہی تنہا سب کا خالق ہے اور اگر اس کائنات کی ساری مخلوق مل جائے اور مل کر صرف ایک مکھی پیدا کرنا چاہے تو رب کعبہ کی قسم سب مل کر ایک مکھی نہیں بنا سکیں گے۔ جب خالق اور مالک اللہ ہی ہے تو اللہ اس بات کو کس طرح گوارہ کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھرایا جائے! کسی اور کی بھی عبادت کی جائے اللہ اس جرم کو ہر گز معاف نہیں کرتا۔
آج امت مسلمہ برائیوں کے دلدل میں گرفتار ہے۔ شراب نوشی، قتل و خون ریزی، زناکاری، اغوا، سود، رشوت، چوری، ڈاکے اور بے حیائی جیسے بڑے گناہ سر عام کیے جاتے ہیں۔
جانتے ہیں اس کے باوجود ہم صرف توحید ہی کا رٹہ کیوں لگاتے ہیں؟
خوب اچھی طرح جان لو کہ دعوت میں توحید ہی کو اولیت کیوں حاصل ہے اور سب گناہوں کو چھوڑ کر شرک کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے! یہ اس لیے کہ شرک ایک ایسا گناہ ہے جو توحید کی ضد ہے، جرم عظیم ہے، توحید کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جبکہ شرک سے بچنے کی دعوت اصل میں توحید ہی کی دعوت ہے۔
توحید کے تقاضے:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسے کامل و مکمل اور جامع دین سے نوازا ہے کہ اس میں انسان کے پیدائش سے لیکر قبر میں اتارنے تک تمام معمولاتِ زندگی اور پیش آنے والے تمام مسائل و مصائب کے موقع پر دین ( اسلام ) ان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ تب توحید کا تقاضا بھی یہی بنتا ہے کہ انسان کسی بھی مسئلے میں الله تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے ہدایت کی طرف رجوع کریں۔ اس کے برعکس اپنے فیصلوں کو طاغوت ( شیطان ) کے پاس نہ لے جائے، یہ توحید کے منافی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں طاغوت یعنی شیطان، غیر اللہ کے پاس رجوع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۶۰
(سورۃ النساء: ۶۰)
ترجمہ:
"اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں۔ مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے طاغوت کی طرف رجوع کریں۔ حالانکہ اُنھیں طاغوت سے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔"
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ طاغوت کے بارے میں وضاحت سے فرماتے ہیں کہ:
’’اپنے معبود و متبوع اور مطاع کی مقرر کردہ حدود سے آگے نکل کر کوئی شخص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کراتا ہے تو گویا وہ اپنا فیصلہ طاغوت کے ہاں لے گیا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو سختی سے منع کیا ہے۔ کیونکہ فیصلہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ یعنی اللہ اور نبیﷺ سے ہی ہونا چاہیئے اور جس شخص نے ان کو نظر انداز کر دیا اور دوسروں کے دروازوں پر دستک دی تو اس نے حدودِ مقررہ سے آگے قدم زن ہونے کی جسارت کی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے جو حدود متعین فرمائی تھی ان حدود سے باہر نکل گیا اور کتاب و سنت کے خلاف احکام کو وہ حیثیت دی جس کے وہ ہرگز مستحق نہ تھے‘‘۔
یہی صورت حال اُس شخص کی ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ بھی اصل میں طاغوت ہی کی عبادت میں مشغول ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں۔
معلوم ہوا توحید ہی مقصد حیات ہے اور مرکزِ توحید سے ہٹ جانا سب سے بڑا ظلم ہے۔ کائنات میں عدل و انصاف کا اصل محور توحید ہے۔ اس روئے زمین پر توحید کے بغیر کبھی بھی عدل قائم نہیں ہوسکتا۔ غور کیجئے کہ اس سے بڑی خیانت اور ناانصافی اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ خالق کو چھوڑ کرمخلوق کی پرستش کی جائے۔