صنفِ نازک یا صنفِ آہن؟ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ



صنفِ نازک یا صنفِ آہن؟ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ


🪶وسیم اکرم حقانی


"تضادات پر مبنی آپ کا یہ دوسرا مؤقف ہے جس کو میں نوٹ کرکے آپ کو مطلع کر رہی ہوں۔ آپ کے سوشل میڈیا پوسٹس اور آرٹیکلز وغیرہ میں کبھی صنفِ نازک تو کبھی صنفِ آہن کی اصطلاح نے مجھ سمیت کئی قارئین کو تشویش میں مبتلا کیا ہوگا لیکن آپ کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری میں لے چکی ہوں۔"


یہ ایک صنفِ نازک کی طرف سے لکھے گئے چوتھے خط کا مرکزی مضمون ہے جو وہ حال ہی میں لاہور سے ارسال کر چکی ہے اور اسی طرح کے کئی تنقیدی خطوط پہلے بھی میں عارضی پتہ پر وصول کرچکا ہوں، جو باعثِ تعجب ہے لیکن یہ پڑھ کر حیرت ہوئی اور حیرت سے بڑھ کر خوشی بھی ہوئی کہ میرے تحریرات کو یوں دلجمعی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کہ اب میرے لیے ایک چیز کے متعلق دو متضاد رائیں قائم کرنا ممکن نہیں۔ بالخصوص ان بدیہی مسائل اور حقائق، جن کے تانے بانے ایک خاص جنس یا خاص گروہ سے ملتے جلتے ہوں، کے متعلق اظہارِ رائے میں احتیاط سے کام لینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ بہرحال اس تنقید یا سوال کا جو جواب دیا وہ ایک پرائیویٹ خط و کتابت کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابلِ بحث نہیں، لیکن عمومی طور پر اس موضوع پر لکھنا اور پڑھنا اسلئے پسند کرتا ہوں کہ ایک وقت تک اس صنف کی تحقیق و مطالعہ کیا اور اب مزید معروضی حالات کی وجہ سے اس پر مزید تحقیق وقت کا تقاضا ہے۔ صنفِ نازک کی اہمیت کو بیان کرنے کے واسطے میں اکثر و بیشتر پطرس بخاری کے الفاظ و اندارِ بیان مستعار لیتا ہوں کہ


"بسا اوقات مجھے صنف نازک پر رشک آنے لگتا ہے۔ صنف نازک کے مطالعہ کے بغیر سائنس کا مطالعہ ناممکن ہے۔ کیا آپ "مقناطیسیت" کا مطالعہ صنفِ نازک کے بغیر مکمل سمجھیں گے، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ عورت سے زیادہ پرکشش ہستی خداوند تعالیٰ نے پیدا نہیں کی۔

کیا آپ "حرارت" کا مطالعہ کرتے ہوئے عورت کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جب آپ جانتے ہیں کہ محفلوں کی گرمی عورت کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔

کیا آپ "برقیات" کا مطالعہ کرتے وقت عورت کو نظر انداز کرسکتے ہیں. جب آپ کو معلوم ہے کہ حوا کی بیٹیاں بادل کے بغیر بجلیاں گراسکتی ہیں۔

صنف نازک آرٹ کے مطالعہ کے لئے ناگزیر ہے، اگر لیونارڈو، رافیل اور مائیکل اینجلز نے عورت کے خط و خال کو قریب سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا وہ ان لافانی تصاویر اور مجسموں کی تخلیق کرسکتے جن کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا؟

کیا کالی داس، شکنتلا، شیکسپیئر، روز النڈ اور دانتے، بیتریس کا تصور بھی ذہن میں لاسکتے اگر انھوں نے صنف نازک کے مطالعے میں شب و روز نہ گزارے ہوتے؟

صنف نازک نے موسیقاروں سے ٹھمریوں اور دادروں، شاعروں سے مثنویوں اور غزلوں اور قاصوں سے کتھک اور کتھاکلی کی تخلیق کرائی"


درحقیقت یہ صنفِ نازک کے ساتھ ساتھ صنفِ آہن ہے اور ان کی آہنی جان کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کو مستعار لینے کے بجائے میں اپنے اردگرد ماحول میں دیکھتا ہوں اور انتہائی سادہ سا تجزیہ پیش کرتا ہوں۔ طلسماتی ماحول پر غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ معاشرے کا وہ آہنی پیکر ہے جس کے سامنے کوئی معنوی و ظاہری قوت ٹک نہیں سکتی، لیکن اس سے بڑھ اتنی ہی نازک طبع بلکہ نازک الحس ہے کہ ایک تیز آواز، ڈانٹ یا طنعہ ان کے وجود کو ختم کرنے کیلئے بس ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مرد، مرد ہونے کی حیثیت سے عورت پر چِلّا سکتا ہے یا بھاری آواز سے مخاطب کرسکتا ہے۔ شاید یہ میری کم فہمی ہو لیکن جہاں تک میں نے سنا اور پڑھا، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ عورت کے سامنے بولتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تیز آواز اس کو تکلیف پہنچا سکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ قوتِ سماعت سے بھی محروم ہو کر ہمیشہ کیلئے آپ کو سننے پر آمادہ نہ ہو۔ یہ نوبت آنے پر آپ کا وجود بھی کالعدم شمار کیا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ  نزاکت اور جرأت و متانت میں کوئی ایسا تضاد نہیں جو اس صنف میں جمع ہونے سے مانع ہو۔ ابتدائی طور پر جب میں نے عورت کو صرف اپنے گاؤں کے حدود میں یعنی دیہاتی علاقوں کی عورتوں کو دیکھا تو مجھے اس صنف کی نزاکت کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ اس کی وجہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے علاقے بلکہ اکثر و بیشتر دیہاتی علاقوں میں جو کام مرد کرتے ہیں، ضرورت پڑنے پر وہ کام عورتیں بھی بخوبی سر انجام دیتی ہیں۔ کھیت میں ہل چلانا، فصل بونا، لکڑیاں کاٹ کر لانا، بھاری بھرکم مشکیزوں میں پانی بھرنا اور تعمیر کیلئے پہاڑوں میں بڑے بڑے پتھر تیار کرکے ان کو گھر تک لانے جیسے سینکڑوں سخت دقت طلب کام عورتوں کو کرتے میں دیکھ چکا ہوں۔ دیہاتی زندگی میں عورتوں پر نہ صرف اندرونِ خانہ ترتیب و تنظیم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ دیگر امور، جو بیرونِ خانہ نمٹانے پڑتے ہیں، میں بھی مردوں کے ساتھ معاونت کرنی پڑتی ہے۔ اب ان عورتوں کو اگر صنفِ نازک لکھ کر ان کی نزاکت پر بحث و تمحیص کی عمومی روش اختیار کی جائے تو شاید یہ سوال باقی رہے کہ صنفِ نازک سے آپ کی مراد فطری نزاکت ہے یا کچھ اور؟ فطری نزاکت تو وہ حالات کے پیش نظر کھو چکی ہیں اور کسی اور لحاظ سے صنفِ نازک کہنے کا رجحان سمجھ سے بالاتر ہے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب میں نے شہری زندگی کا رخ کیا اور وہاں کے عورتوں سے واسطہ پڑا تو حقیقی معنوں میں صنفِ نازک کا معنی سمجھ آیا کہ ایک عورت راستہ پر چلتی ہے اور تیز کسیلی باتوں، میلی نظروں کا بوجھ پڑتے ہی اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اور وہ فطری طور پر احساس کمتری اور ذہنی مغلوبیت کے سبب راستہ بھول جاتی ہیں۔ جو خود پر ایک ذمہ داری کا احساس حاوی سمجھ کر دنیا کی خوبصورتی و رعنائی سے بیزار ہو جاتی ہے۔ اگر اس کو صنفِ نازک نہ کہا جائے تو صنفِ نازک کا نفسِ وجود بھی مسلم نہ ہوگا۔ میں اگر دو الگ الگ حیثیتوں سے ان اصطلاحات کی تطبیق کا اہتمام کروں تو دیہات میں رہنے والی عورت اور وہ شہری عورت جس کے دو نازک سے کاندھوں پر بھاری بوجھ ہو، صنفِ آہن ہے جبکہ اس کے برعکس ہر عورت صنفِ نازک ہی ہے۔ دوسری حیثیت کا تعلق خود عورت کی ذہنی و فکری رجحان سے ہے، کچھ خواتین خود کو نفسیاتی و ذہنی طور پر مغلوب سمجھتی ہے جس میں اکثر ہم مردوں کا قصور ہے، وہ یقیناً صنفِ نازک ہے کیونکہ محض اس احتمال اور غلبہ کے شک کی وجہ سے وہ اپنی فطری آزادی اور خودمختاری کو بھول کر مرد کے مقرر کردہ حصار و حدود میں زندگی جیتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ صنفِ آہن ہے جس کا نام جلی حروف سے لکھ شہر کے مرکزی دروازوں پر آویزاں کرنے کا دل کرتا ہے جو خود مختاری اور خود اعتمادی میں مردوں سے بڑھ کر ہے، جو اپنی فطری اور تخلیقی کمزوری کو تسلیم کرنے کے بعد مرد کے سامنے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھ پاتی ہے اور کم از کم خود کا وجود بحال رکھتی ہے۔ اب مجھ پر جدیدیت پسند یا روشن خیال کا شاید لیبل چسپاں کیا جائے لیکن میں یہ کہنے سے باز نہیں آؤں گا کہ اگر کسی کو دنیا میں اپنے آنے سے قبل تعین جنس و فکر کا اختیار دیا جائے تو وہ اس جنس و صنف کو منتخب کرکے کامیاب کہلایا جاسکتا ہے کہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے مرد کے دل پر حکمرانی اور خوددار و ہنرمند ہونے کے باعث معاشرے میں بطورِ نمونہ جیتی ہے۔ 

اب ذہن میں سوالات در سوالات ابھر رہے ہیں کہ صنفِ نازک یا آہن کی مجموعی حیثیت کو مردوں نے کس قدر متنازعہ بنایا اور کس قدر ذہنی و نفسیاتی مغلوبیت میں دھکیلا کہ آج عورت سب سے پہلا لفظ یہی سنتی ہے کہ عورت کا وجود مرد کے مقابلے میں ثانوی اور کمزور ہونے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ قرآن و حدیث کے ناقابلِ تردید حقائق و مسلّمات سے آگے نکل کر بھی عورت کو نفسیاتی مغلوبیت میں دھکیلا گیا جو ناقابلِ برداشت ہے کیونکہ اس ذہنیت کے واضح اثرات ہمارے معاشرے اور آنے والی نسل پر پڑتے ہیں کیونکہ عورت کے باکردار وجود سے معاشرے کا اصولی دوام متعلق ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی