اے جانِ پدر! یہ خواہش کیوں؟
ایک ننھی منی، حسین و معصوم شکل وصورت والی ہوشیار بچی اپنے مضبوط اور باہمت باپ(ﷺ) کے ساتھ جب بھی باہر نکلتیں تو اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے والد بزرگوار (ﷺ) کی انگلی پکڑ کر ساتھ چلنے کی ضد فرماتیں، جب شفقت سے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی معصوم لخت جگر سے پوچھا جاتا کہ اے جانِ پدر! یہ خواہش کیوں؟ تو وہ بھری آنکھوں سے دیکھ کر کہتیں:
"بابا جان! اے میرے صابر و شاکر عزیز از جان پدر! مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ ظالم و جابر، یہ سفاک اور خونخوار، درندہ صفت کفار آپ کو اکیلا جان کر نقصان نہ پہنچا دیں۔ جب میں آپﷺ کے ساتھ ہوں گی یہ آپ کو چھونے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے"۔
اکثر و بیشتر جب آپﷺ کے پائے مبارک میں کافروں کے بچھائے کانٹے چبھ جاتے اور آپﷺ ناخن مبارک سے کھینچتے اور نوکیلے سرے ٹوٹ کر گوشت ہی میں رہ جاتے تو وہ آپﷺ کا جوتا مبارک اُتار کر اپنی ننھی انگلیوں سے پائے مبارک کے کانٹے چنتی جاتیں اور سسکیاں بھرتی جاتیں، اور جب کفر کے غرور میں مبتلا مکی آپ کے سر مبارک پر آلودگی پھینک دیتے تو آپ رضی اللہ عنہا اپنی ہاتھوں سے صاف کرتیں، گرم پانی سے سر مبارک دھوتیں اور روتی جاتیں اور اپنی بھیگی ہوئی آواز میں کہتیں:
"بابا جان فکر نہ کریں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے، آپ کچھ غلط نہیں کر رہے جس کی وجہ سے ان کے برے رویے کو جواز کا پروانہ دیا جائے، آپ ان کو حق و صداقت کی طرف دعوت دے رہے ہیں جس کو سمجھنے سے یہ قاصر ہیں، لیکن اے میرے بابا جان! آپ کے رب سے بڑھ کر کون بہتر کارساز اور مدبر ہوسکتا ہے؟ یہ سب کچھ آپ کے حق میں ہونے والا ہے۔"
یہ مکی دور تھا، ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل کیلئے آدم سازی کا عمل شروع ہوچکا تھا اور خلافتِ ظاہرہ کی تشکیل سے قبل آپ کو خلافتِ باطنہ کی تشکیل کا اہم ترین ہدف سامنے تھا، اور آپ چپکے چپکے دعوت و تبلیغ میں مصروف عمل تھے۔ آپﷺ کی زندگی کے مشکل ایام مکہ مکرمہ میں گزرے ہیں کہ ایک طرف عرب کے سخت گیر اور جابر سردار تھے تو دوسری طرف ظلم و ستم میں دبے ہوئے ان کے بےو قوف ہمنوا، جن سب کا مقصد آپﷺ کو اور آپﷺ کے ساتھیوں کو اس مبارک راہ پر چلنے سے روک کر خود کی طرح ظلمتوں اور گمراہیوں پر قانع رکھنا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کا ابتدائی دور انتہائی مشکل تھا لیکن مکی دور کی اہمیت و افادیت اور سرور کائناتﷺ کی مدبرانہ فہم و فراست اور صبر و تحمل کا بھی انکار ممکن نہیں، مشرکینِ مکہ سب یکجا ہوکر عہد و پیمان کرچکے تھے کہ آپﷺ کا وجود ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ ایک نیا دین لیکر ہمارے حریف بن چکے ہیں بلکہ اس نئے دین کے ساتھ ساتھ آپ ہمارے عقائد اور نظریات کے سب سے بڑے ناقد بھی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام پر ہماری آہنی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ وہ دو ٹکے کے لوگ جن کو معاشرے میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا وہ اسلام قبول کر کے ہمارے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ وہ بلال جس کی شکل و شبہات بھی قابلِ تعریف نہ تھی، جو غلام تھا، حبشی النسل تھا اور آقا کے ہر فرمان پر بلا چوں چوں و چرا لبیک کہتا تھا آج ستم پر ستم سہہ کر بھی اپنے مؤقف سے ہٹنے کو تیار نہیں، یہ اگر ہمارا زوال نہیں تو کیا ہے؟
یہ حقیقت پرست لوگ تھے زمینی حقائق سے انکار نہیں کرتے تھے، جب اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا تھا تو یہ لوگ ظلم و ستم کی آخری حدود چھونے پر آمادہ تھے۔ مکہ مکرمہ کی تپتی ہوئی ریت پر مظلوم مسلمانوں کو لیٹا کر ان کے سینوں پر بھاری بھرکم پتھر رکھ کر قہقہے لگاتے تھے۔ ظلم و تشدد کے فلسفے بھی ان سفاک اور جابر بالادست قوتوں کے کردار و عمل پر شرمندہ تھے کہ ایک نہتا اور کمزور غلام جو دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے، وہ ان کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ لیکن ان سرکشوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر یہ غلام لوگ اس قدر مستحکم اور مضبوط ہوکر ہم کو مشکل وقت دے سکتے ہیں تو اگر کل کوئی باعزت اور باوقار شخص اسلام قبول کر لیتا ہے تو یہ ہمارے لیے اس سے بڑھ کر مہلک اور خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے ظلم و تعدی کی راہ پر چلنا مناسب سمجھا۔ لیکن مسلمانوں کی ایک ریاست تھی جس کو ریاست یا خلافتِ باطنہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہیئت حاکمہ اور اختیار تو حاصل نہیں ہوتا لیکن وقت آنے پر انہی اصولوں پر ایک مستحکم ریاست تشکیل دی جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں اول قسم کی ریاست کی تشکیل ہوئی تھی جس میں مسلمان ایک مظلوم ریاست کے باسی تھے۔ اس دور میں ترجیحات الگ تھیں۔ ہر ستم کو سہنے کا حکم تھام ہر طرح کی مزاحمتی کاروائی ممنوع تھی اور جہاد و قتال کا حکم تاحال نہ اترا تھا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور مکی دور میں سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے اور وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ملا اور مدینہ منورہ جاکر آپﷺ نے ریاستِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور وہی سے الگ ترجیحات پر سفر شروع کیا۔ مکہ مکرمہ میں آپﷺ نے افراد کو تیار کیا، ان کو مضبوط رہنے کا ہنر سکھایا، خود پر طنعے سہہ کر ان کو یہ سبق دیا کہ ہمارے جذبات بعد میں ہے، اسلام کا مرتبہ اول ہے۔ آپﷺ پر پتھر کے وار ہوئے لیکن آپﷺ نے ان کو اف تک نہ کیا تاکہ آپﷺ کے اصحاب یہ جان سکیں کہ دین کی راہ مشقتوں اور تکلیفوں سے بھری پڑی ہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کوئی ایک دو ہی آپ کو ہار پہنائیں گے، اکثر تو آپ کا حوصلہ توڑنے کیلئے کام کریں گے۔ اگر تھوڑی بہت ہمت ملی تو تم پر وار کرنے سے بھی نہیں کترائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کے اصحاب دنیا کے مہذب ترین اور اطاعت گزار جماعت کی صورت میں نمودار ہوئے اور انھوں نے اپنے ہر جذبے، ہر خواہش کو دین کے تابع کرکے اس آفاقی اصل اور قانون کا ماخذ پیش کیا کہ جذبات ہمیشہ نظریات کے تابع ہوا کرتے ہیں۔ ذاتی جذبات کی اتباع میں اٹھایا گیا درست قدم بھی غلط تصور کیا جاتا ہے۔ تبھی تو مکہ مکرمہ کے کمزور لوگ بھی مضبوط اور زور آور مسلمانوں پر ہاتھ اٹھاتے تھے لیکن مجال ہے کہ کوئی مسلمان بغیر فرمان یا حکم کے جواب دیتا۔ لیکن جب حکم ملا، تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح مسلمانوں نے عرب کے بہترین شہسواروں اور بہادروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔