بیچ طائف بوقت سنگ زنی

 


بیچ طائف بوقت سنگ زنی

🪶وسیم اکرم حقانؔی




”اے میرے اللہ! اے میرے پروردگار!  میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی اور لاچارگی کا شکوہ کرتا ہوں، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں اور میری تذلیل پر یکجا ہوچکے ہیں، اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں، اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان! اے میرے پرودگار! آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں، جو مجھ سے بیزار ہیں، جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں، اے اللہ! اے میرے عظیم پرودگار! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں۔

اے اللہ! آپ کی عافیت کا دامن بہت وسیع ہے، اے پروردگار! میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے‘‘۔


وادی غیر ذی زرع سے تقریباً چالیس میل کے فاصلے پر واقع خوب صورت وادی، زرخیز باغات اور پہاڑوں سے مزین علاقہ طائف میں ایک لائقِ تقلید اور قابلِ فخر انسانیت ساز، رہبر انقلاب اور پیغمبرِ اسلامﷺ پر انتہائی ظلم و ستم ڈھایا گیا جس کا ذکر کرتے ہوئے آج میرے ہاتھوں پر کئی مرتبہ کپکپی طاری ہوئی اور آنکھوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دو آنسو گر گئے۔ ایک جامع منصوبہ بندی اور منظم حکمت عملی کے تحت طائف کے اوباشوں اور آوارہ گردوں کو آپﷺ کے پیچھا لگا گیا، کوئی تالی بجا کر تنگ کرنے لگا، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کس کر اپنی تربیت کا ثبوت فراہم کرتا گیا، کوئی ہلڑ بازی پر اترا جبکہ شور اور اودھم مچاتے ہوئے شرپسند لوگ محسنِ اعظمﷺ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے۔ یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ جب پوری دنیا کا حقیقی خیر خواہ اور محسن آئے گا تو وہی سلوک کریں گے جو ہمیشہ سے انسان اپنے حقیقی خیر خواہوں سے کرتا آیا ہے۔ سو جوں ہی محسنِ اعظمﷺ کا گزر وہاں سے ہوا تو انھوں نے آپﷺ کو پتھر مارنا شروع کیے۔ یہ مجھ سے نہ پوچھیں کہ ان کے ہاتھ کیسے اٹھے اور وہ یہ ظلم کرنے پر کس طرح آمادہ ہوئے؟ اس سوال کے جواب میں اب بھی میں سرگرداں ہوں۔ بہرحال سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بلکہ نعلین مبارک تک آپﷺ لہولہان ہوگئے، پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے، بدن مبارک سے خون مبارک بہتا بہتا قدموں تک پہنچا، قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا، نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے۔ پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے، چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے۔ یہ درد ناک منظر زمین و آسمان نے دیکھا تو غالب و قادر رب سے بھی یہ پوشیدہ نہ رہا۔ مسلسل شدید پتھراؤ کی وجہ سے آپﷺ بے ہوش کر گر پڑے تو آپﷺ کو اپنے ساتھی نے اٹھایا، قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے اور خون سے صاف کیا، کچھ دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں ایک باغ تھا اور انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں عابد حق پرست بن کر مناجات و دعا میں مشغول ہو گئے۔ آپﷺ کے سوز و گداز، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس سے نالہ فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپ نے بارگاہ ایزدی میں یہی دعا کی جس کو آپ ابھی پڑھ چکے۔


میرے عظیم انسانیت ساز لیڈر، محسنِ اعظم، سرمایہ تخلیق حضرت محمدﷺ کو تبلیغ اسلام کی پاداش میں جن مشکلات، مصائب، تکالیف، آزمائشوں، اذیتوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مکہ میں جان لیوا مظالم، جانثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور حبشہ کی جانب ہجرت، شعب ابی طالب کا تین سالہ محاصرہ و مقاطعہ، قریشیوں کے ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، یہاں تک کہ ابو لہب اور دیگر شرپسندوں کی حکم پر آپ کے سر مبارک پر غلاظتیں انڈیلی گئیں، انہی دشمنان اسلام کے کہنے پر آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ کے جسم مبارک پر اونٹوں کے اوجھ ڈالے گئے، گرد وغبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی بیباکانہ جسارت بھی کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں یہ صورتحال دیکھ دل گیر ہوئیں اور ان کی زبان مبارک سے بد دعائیہ جملے نکلے تو آپ نے فرمایا کہ:

”اے بیٹی! اے جانِ پدر! دلگیر نہ ہو، تیرے باپ کا اللہ خود محافظ ہے۔“

گویا ظلم، ستم، اذیت، تکلیف، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپ سے برتا گیا لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپ کے صبر وتحمل، عفو و درگزر، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور آج تک تاریخ کا ورق ورق آپ کے رحم و کرم، عزیمت، ثابت قدمی اور فراخ دلی اور حوصلہ کی داستانیں سنا رہا ہے۔ جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے سے نہ بچے تو آپ نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی اور طائف کی طرف سفر کا ارارہ فرمایا۔

طائف میں مکہ کے سردار وں نے  کوٹھیاں بنا رکھی تھیں، قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا، یہ عرب کا طاقتور قبیلہ تھا، آپﷺ فریضہ تبلیغ کےلیے پہنچے۔ عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا، معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انھیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا، لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا۔ آخر کار آپﷺ یہاں کے سرداروں کے پاس تشریف لےگئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان بدقسمتوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انھوں نے آپ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ کا مذاق اڑایا، کسی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔ تو کسی نے قسم کھائی کہ اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا، اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے، اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے بات کروں۔


علماءکرام فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے پاس جبرائیل آئے اور عرض کی:

"یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے سن لیا، دیکھ لیا، تم نے جو کچھ فرمایا، انھوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ اور سن لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال (پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ) موجود ہیں آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔ ملک الجبال نے عرض کی: "مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا۔ آپ حکم دیں مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں؟"


ہائے مجسمہِ صبر وضبط، تحمل و برداشت کا پیکر اور استقلال کا دوسرا نام، دعویٰ رحم و کرم کرنے والا عظیم مذہبی و سماجی لیڈر، فراخی حوصلہ اور وسعت ظرفی کا نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ فرماتے ہیں، دریا دلی والے دل رحمت میں کرم کی ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا، فرشتوں کو جواب دیا: 

”ارجوا ان یخرج اللہ من اصلابھم من یعبداللہ ولا یشرک بہ شیئا"

اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے۔


طائف کا یہ واقعہ لکھتے ہوئے بہت رویا لیکن لکھنا اسلئے ضروری سمجھا کہ منبر پر بیٹھ کر صرف حلوہ کھانے اور عورتوں کو پسند کرنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں! بلکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ اس لیے تو شاعر کہتا ہے اور میری بھی یہی تمنا ہے کہ:

بیچ طائف  بوقتِ سنگ زنی

تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی