یا صباحاہ! ہائے صبح کا خطرہ!



یا صباحاہ! ہائے صبح کا خطرہ!

🪶وسیم اکرم حقانؔی



ہائے صبح کا خطرہ!

یا صباحاہ!

اے بنی کعب بن لُؤَیّ!

 اے بنی مرّہ!

 اے آل قُصَیّ!

اے بنی عبد مناف!

 اے بنی عبد شمس!

 اے بنی ہاشم!


ایک چالیس سالہ نوجوان، سنجیدہ اور فہمیدہ شخصیت، انتہائی دردِ دل کے ساتھ وادی غیر ذی زرع میں ایک بلند وبالا صفا نامی پہاڑ کی بلند وبالا چوٹی پر کھڑا تھا۔ اس کی آواز میں انتہائی خوف تھا لیکن امید کی ٹھنڈک نے خوف کی حرارت کو کافی حد تک کم رکھا تھا۔ خوف و امید کے مابین دائر یہ فرد جو مجسمہِ حسن و جمال تھا، اپنے خاندان کے بڑے بڑے لوگوں کو پکار رہا تھا۔ عرب میں یہ خطرے کی شدید علامت سمجھی جاتی تھی کہ کوئی شخص پہاڑ پر کھڑا ہوکر قوم کے بڑوں کو بیک آواز یکجا کریں تو کوئی خلاف توقع واقعہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس شخص کی بھاری آواز جس کی سماعت سے بھی ٹکرائی وہ پہاڑ کے دامن میں پہنچتا گیا اور کچھ لوگوں نے خبر لانے والوں کو بھیجا کہ جاؤ! معلوم کرو کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے قوم کے تمام بڑے، سردارن، بچے، بوڑھے اور نوجوان سب جمع ہوگئے۔ سب کی نظریں اس شخص کے چہرے پر مرکوز تھیں اور ان سب کے دلوں میں خوف اور یقین تھا۔ خوف اس بات کا کہ معلوم نہیں پھر کس مصیبت سے واسطہ پڑے گا؟ کیا کوئی دشمن ہم کو مٹانے کیلئے ہم پر چھڑائی تو نہیں کر رہا؟ کیا ہماری قوم کو کوئی خطرہ درپیش ہے؟ ان کے ذہن میں اس خوف کے برابر یقین کا طوفان  بھی برپا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ شخص سنجیدگی اور متانت میں ہم سب سے آگے ہیں۔ یہ مذاق اور غیر ضروری کام کیلئے ہم کو یوں نہیں بلا سکتا۔ ضرور کوئی اہم اور کچھ خاص امر پیش آیا ہے؟

معتبر مؤرخین، مفسرین اور سیرت نگار لکھتے ہیں کہ اس سے اسی نوجوان نے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور صاف صاف کہہ دیا کہ:

یا بنی عبدالمطلب!

یا عباس!

یا صفیہ عمۃ رسول اللہﷺ!

یا فاطمہ بنت محمدﷺ!

"انفذوا انفسکم من النار، فانی لا املک لکم من اللہ شئیا، سلونی من مالی ما شئتم"

”تم لوگ آگ کے عذاب سے خود کو بچانے کی فکر کرو! میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو“۔


اس مختصر اعلان کے بعد اب وہ عظیم رہبر اور ناقابلِ شکست جرات و شجاعت کا مالک صفا کی پہاڑی پر گرج دار آواز میں قوم کو مخاطب کر رہا ہے۔ ان سب کو ناموں سے پکار کر خاموش ہوا اور تھوڑی دیر میں وہ پھر پکار اٹھا:

”اے لوگو! اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر پڑا ہوا ہے اور گھات میں ہے، جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے، شب باشی اسی پہاڑ کی پشت پر کر چکا ہے، موقع پاتے ہی تم سب پر حملہ آور ہوگا، آج یا کل یہاں پہنچ کر تم کو کاٹ ڈالے گا، مردوں کو تہہ تیغ کرکے ان کے اموال لوٹے گا، خواتین کی عصمت دری کرنے کی کوشش کرے گا اور بچوں بوڑھوں پر ذرا برابر رحم نہیں کھائے گا۔ تو مجھے بتاؤں اے لوگو! 

اے بنی فلاں کی اولاد! مجھے بتاؤ تم میری بات سچ مانو گے؟

جواب دیجئے! تم لوگ میرا یقین کر لو گے؟

اے میرے عزیزو! تم پیشگی تحفظ یقینی بناؤ گے؟ 

تم اس خطرے سے نمٹنے کیلئے احتیاطی تدابیر کا سہارا لو گے؟ یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہلاکت و بربادی کا انتظار کرو گے؟“


یہ سن کر سب حاضرین خوف و دہشت میں پڑ گئے لیکن سب نے بیک زبان ہوکر کہا ہاں! ہاں! کیوں نہیں! ہم یقین کریں گے، ہم مان لیں گے کہ کوئی اس پہاڑ کی پشت پر ہم کو کاٹ ڈالنے کیلئے دانت پیس رہا ہے، کوئی ہے جس کی نگاہیں ہماری مال و زر پر ٹکی ہوئی ہے کیونکہ ہمارے تجربے میں آپﷺ کبھی جھوٹ بولنے والے نہ رہے، آپﷺ نے ہمیشہ سچ ہی بولا ہے، سچ کے سوا آپ نے کچھ نہیں بولا، آپﷺ صادق ہیں اور امین بھی، ہمارے پاس نہ ماننے کا کوئی عقلی جواز نہیں، ہم ضرور بضرور یقین کریں گے۔


”اچھا! یہ بات ہے تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو! اللہ سے ڈرو! اور اس کو ایک ہی معبود جانو! میں اس کا بھیجا گیا پیغمبر اور رسول ہو، تم یقین کر لو اس میں تمہاری دنیوی اور اخروی فلاح و نجات مضمر ہے، ان کی عبادت سے باز آ جاؤ جو تم کو  نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان! ان سب بتوں اور مورتیوں سے دستبردار ہوجاؤ جو سراسر دھوکہ اور فریب ہے۔ ایک رب العالمین کی اطاعت پر یکجا ہوجاؤ اور مجھ سے شریعت اور دین قبول کرو، نیک اعمال کا اہتمام کرو، قیامت کے دن میرے رشتہ دار صرف متقی اور پرہیز گار لوگ ہوں گے، ایسا نہ ہو کہ تم اپنے جرائم و گناہوں کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ اور میں آپ کی کچھ مدد نہ کر سکوں گا۔ آپ پکاریں گے یا محمدﷺ! یا محمدﷺ! لیکن اے میرے عزیز ساتھیو! تب میں مجبور ہوں گا کہ آپ سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور آپ کا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا لیکن قیامت کے دن میں چاہتے ہوئے بھی آپ کی مدد نہ کر پاؤں گا، مجھے اس اذیت میں مبتلا نہ کرنا اور ایک ذات وحدہ لا شریک پر ایمان لا کر مجھے اللہ تعالیٰ کا پیغمبر تسلیم مان لیں۔“


یہ تاریخی ارشادات فرما کر وہ تو خاموش ہوا لیکن یہ الفاظ ان تمام حاضرین پر آسمانی بجلی بن کر گر پڑے۔ جو لوگ چند لمحات پہلے جس کو صادق و امین تسلیم کر رہے تھے وہی سب اب اس کو ٹکرانے پر آمادہ ہوگئے اور سبقت بھی اپنے اس چچا نے کی، جس نے اپنے بھائی کے لخت جگر کی پیدائش کی خوشی میں اپنا قیمتی مال یعنی باندی کو آزاد کیا تھا۔ لیکن یہاں معاملہ یکسر تبدیل ہوا اور وہی اپنے، بیگانگی پر اتر آئے، جو سینہ تان کر پشت پر کھڑے رہتے تھے وہی مقابلے پر اتر آئے۔ پہلا الزام خود کے بہت قریبی رشتہ دار سے سننے کو ملا۔ ابو لہب نے سخت زبان استعمال کی جو اس راہ وفا میں ملنی والی پہلی اذیت تھی۔

 یہی لگتا ہے کہ اس لمحے سب منتشر ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہوں گے، سب قریش آپس میں کُھسر پھُسر کرتے ہوئے واپس ہوئے، مگر صدیوں سے رائج عقائد باطلہ اور افکار فرسودہ پر حق کی جو کاری ضرب ثبت ہوئی اس زخم سے آج بھی خون بہہ رہا ہے۔ اہل باطل کے تعمیر کردہ فرسودہ اور اختراعی نظریات و افکار کی عمارت میں جو دراڑیں فقط یا صباحاہ! یا صباحاہ! کی آواز سے پیدا ہوئیں اس کے دوبارہ مرمت کیلئے آج تک انتھک محنت جاری ہے لیکن کارآمد نتیجہ تاحال برآمد نہ ہوسکا۔ حالانکہ اس وقت کے حاضرین آج کی بدولت زیادہ طاقتور، ہوشیار اور باصلاحیت تھے۔ کیونکہ انھوں نے مدتوں انسانوں پر حکومت کی، ان کے قلوب و اذہان کو انگلیوں میں ادھر اُدھر پھیرتے رہے۔ کسی نے کوئی مزاحمت دکھائی نہ سر اٹھانے کی گستاخی کی۔ اور یہ ممکن بھی نہ تھا کیونکہ فطرت جب مسخ ہو جائے تو بہت سے خلاف فطرت امور بھی سہل ہو جاتے ہیں۔ انسانی اقدار معاشرے میں اپنا وہ وقار کھو دیتی ہیں جس کی بنیاد پر ان کیلئے مخلوقات کو مسخر کیا جاتا ہے۔ انسانیت پر ظلم و تعدی کا یہ خوفناک دور ختم ہونے کو تھا، اپنا زوال دیکھ کر ہی اپنوں نے تلواروں کو تیز کرنا چاہا، بدگوئی اور زبانی درازی پر اتر آئے اور ہر حربہ اور پروپیگنڈہ استعمال کیا کہ کسی طرح سے آپﷺ کو اس راہ پر چلنے سے روکا جائے لیکن ان کی ہر کوشش بےسود ثابت ہوئی اور یہ صبح واقعی ان کیلئے ایسا خطرہ بنا کہ ان کیلئے پھر سر اٹھانا ممکن نہ رہا۔


میری حیات کے لمحے بسر ہوں کچھ ایسے

کبھی درودﷺ لبوں پر ہو تو کبھی سلامﷺ آئے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی