اے میرے سرتاجﷺ
"اے روحِ منﷺ…
اے میرے سرتاجﷺ…
اے میرے عظیم رفیقِ حیاتﷺ…
یہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ آپ جیسے عظیم المرتبت شخصیت کو ناکام ہونے دیں اور ناکام ہونے کیوں دیں گے؟ جب آپﷺ ہر وقت صلہ رحمی کرتے ہیں اور اپنوں کے علاؤہ پرایوں کو بھی یکساں اور خوب نوازتے ہیں، بھاری بھرکم بوجھ میں دبے ہوئے لوگوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، بیروزگار آدمی کو کسب پر لگاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں"
ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ اپنے سردار اور محسنِ انسانیتﷺ کو تسلی دینے میں مشغول تھیں اور آپﷺ کے جسد مبارک پر ہیبت کی وجہ سے کپکپی طاری تھی۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ آپﷺ "زمّلونی زمّلونی" کی صدائیں بلند فرماتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے، اور امی خدیجہؓ نے آپﷺ کو دیکھا تو وہ بھی خوف میں مبتلا ہوگئی کہ یوں اچانک کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟ آپﷺ سخت بخار کی وجہ سے شدت کی سردی محسوس کر رہے تھے اور جلدی جلدی گھر پہنچ کر اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ مجھے چادر یا کمبل میں ڈھانپ لیجیے۔ کچھ لمحہ بعد جب آپﷺ کا بخار اترا اور افاقہ ہوا تو امی جان نے دریافت کیا کہ حضور! یوں اچانک آپ کو کیا ہوا؟ جس کے جواب میں محسنِ اعظمﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو غار حرا کا پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ اس سے مجھ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہوگیا۔ ام المؤمنین امی خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ناکام نہ ہونے دیں گے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں………
مفتی محمد شفیع صاحب اس پر لکھتے ہیں کہ:
”حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا لکھی پڑھی خاتون تھیں، ان کو شاید کتب سابقہ توریت و انجیل سے یا اس کے علماء سے یہ بات معلوم ہوئی ہوگی کہ جس شخص کے اخلاق و عادات ایسے کریمانہ ہو وہ محروم و ناکام نہیں ہوا کرتا، اس لئے اس طریقے سے رسولﷺ کو تسلی دی“
بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک طویل حدیث میں نبوت اور وحی کی ابتدا کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ:
"ام المومنین امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: باضابطہ نبوت ملنے سے قبل محسن اعظمﷺ کثرت سے سچے خواب دیکھنے لگے کہ جو کچھ آپﷺ خواب میں دیکھتے، بالکل اس کے مطابق واقعہ پیش آتا اور اس میں کسی تعبیر کی بھی ضرورت نہ تھی، صبح کی روشنی کی طرح واضح طور پر خواب میں دیکھا ہوا واقعہ سامنے آجاتا تھا۔“
اس کے بعد رسول اللہﷺ میں مخلوق سے یکسوئی اور خلوت میں عبادت کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، جس کےلیے آپﷺ نے غار حرا کو منتخب فرمایا۔ غارِ حرا مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ سے کچھ آگے ایک پہاڑ پر ہے جس کو جبل النور کہا جاتا ہے۔ آپﷺ اس غار میں جا کر راتوں کو قیام فرماتے اور عبادت کرتے تھے، جب تک اہل و عیال کی خبر گیری کی ضرورت پیش نہ آتی وہیں مقیم رہتے تھے اور اس وقت کےلیے آپ ضروری توشہ لیجاتے تھے اور پھر توشہ ختم ہونے کے بعد امی خدیجہؓ کے پاس تشریف لاتے اور مزید کچھ دنوں کےلیے توشہ لیجاتے۔ آپﷺ غار حرا میں تھے کہ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور آپﷺ سے فرمایا کہ اقراء…! یعنی پڑھیے۔ آپﷺ نے جواباً فرمایا کہ ما انا بقاری…! یعنی میں پڑھنے والا نہیں ہوں!
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ امی تھے۔ اب یہاں پر مفسرین نے عجیب فنی بچث کی کہ سوال اور جواب میں کیا مطابقت ہے۔ خواص کی دلچسپی کےلیے یہ نکتہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مفتی محمد شفیع صاحب اس موقع پر فرماتے ہیں کہ جبرئیل امین کے قول اقراء کی مراد آپﷺ پر اس وقت واضح نہ تھی کہ کیا اور کس طرح پڑھوانا چاہتے ہیں؟ کیا کوئی لکھی ہوئی تحریر دیں گے جس کو پڑھنا ہوگا یا کوئی اور طریقہ ہوگا اس لیے اپنے امی ہونے کا عذر کردیا۔ جبکہ مولانا مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ فرشتے نے جب حضورﷺ سے کہا کہ پڑھو! تو حضورﷺ نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انھیں پڑھنے کےلیے کہا تھا۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں، تو حضورﷺ کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ بہرحال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:
”میرے اس جواب پر جبرئیل امین نے مجھے آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی۔ اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا اور پھر وہی بات کہی اقراء! میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں! تو پھر جبرئیل امین نے دوبارہ آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی، پھر چھوڑ دیا اور تیسری مرتبہ پھر کہا اقراء! میں نے پھر وہی جواب دیا، تو تیسری مرتبہ پھر آغوش میں دبایا پھر چھوڑ کر کہا، اقراء باسم……“
حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں، یہ زمانہ جاہلیت ہی میں بت پرستی سے تائب ہو کر نصرانی بن گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان سے کہا کہ ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سن لیں! ورقہ ابن نوفل نے رسول اللہﷺ سے حال دریافت کیا تو آپﷺ نے غار حرا کا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ بن نوفل نے سنتے ہی کہا کہ یہ وہ ہی ناموس یعنی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر اتارا تھا۔
یہ ہیں محسنِ انسانیتﷺ، جس پر آسمانی کتاب کا نزول کیا جا رہا ہے اور ابتدائی الفاظ جو آج تک دنیا میں گونج رہے ہیں، اقراء سے آپﷺ کی زبان پر دنیا کو یہ تعلیم دی گئی کہ پڑھنا اور پڑھانا بہر صورت ممدوح اور قابلِ ستائش عمل ہے۔ یہی وہ دین ہے جس کے جزئیات و فروع کا تصور تک نہیں لیکن ام المؤمنین عملاً و قولاً قیامت تک انسانیت کو ذہنی طور پر تیار کر رہی ہیں کہ جو شخص با اخلاق اور مہربان ہو وہ ناکام نہیں ہوا کرتا، جو شخص توڑ کے بجائے جوڑ پیدا کرتا ہے، پوری دنیا اس کی عزت و احترام میں جھک جاتی ہے۔ اس کی مثال پیش کرنے کےلیے ہمارے پاس اس کے علاؤہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم ببانگ دہل تسلیم کریں اور پوری دنیا تک یہ پیغام پہنچائیں کہ:
"مکمل و اکمل انسان رسول اللہﷺ کے علاؤہ کوئی نہیں"
خدایا عشق محمدﷺ میں ایسا بھی مقام آئے
کہ سانس بعد میں آئے پہلے نبیﷺ کا نام آئے