محسن اعظمﷺ کی آمد



محسنِ اعظم ﷺ کی آمد

🪶وسیم اکرم حقانؔی



جب بےچینی و اضطراب اور معاشرے کی غیر یقینی صورتحال کے بدولت عین ممکن بلکہ قریب تر تھا کہ یہ نظامِ عالم درہم برہم ہو جاتا اور انسانوں کے نام پر کرہِ ارض پر بسنے والے حیوانی کارندوں کو لگام دی جاتی۔ کیونکہ قوانینِ الٰہیہ کے نفاذ کیلئے مقرر کیا گیا حضرت انسان خود قوانینِ الٰہیہ کا سب سے بڑا حریف بن کر سامنے کھڑا تھا، تو عین اسی لمحہ یہ ممکن تھا کہ یا تو انسانیت کو نیست ونابود کیا جاتا یا ان کی اصلاح و تربیت کیلئے کسی ایسے مجسمۂ کمال فرد کو مبعوث کیا جاتا جو صدیوں کا گند صاف کرکے کرہِ ارض پر زیست کو ایک مرتبہ پھر ممکن بنا پائے۔ اول الذکر صورت تخریب اور تباہ کاری کی تھی جس کا مطالبہ اور خواہش کوئی صاحبِ عقل فرد نہیں کرسکتا جبکہ ثانی الذکر صورت تعمیر و ترقی کی تھی جس کی ضرورت فطری قوتوں سے مالامال نفوس نے محسوس کی جو کرہِ ارض پر بسنے کے مقصد کو دل و جان سے جانتے اور سمجھتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ شاید کوئی اخلاقی، معاشی و سیاسی، معاشرتی اور سماجی برائی ایسی ہو جو اس عصر اور زمانے میں دندناتی نہ پھرتی ہو۔ ہر سمت پھیلی یہ برائیاں اب معاشرے کا  وہ حصہ بن چکی تھیں جس کے بغیر معاشرے کا وجود نامکمل تھا۔ کسی بازار میں جھوٹ اور فریب کے بغیر کاروبار یا لین دین کا تصور قرینِ قیاس نہ تھا۔ ایک قتل کے مقابلے میں خون کی ندیاں نہ بہانا بزدلی اور بے ہمتی اور سستی تھی۔ ایک خدا کا تصور انسانیت کی توہین تھی جبکہ ایک خدا کے مقابلے میں تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش کامیابی و سعادت کی ضمانت تھی۔ خدا کا وہ مقدس گھر ہر قسم کی اعتقادی و عملی نجاستوں سے بھرپور تھا، جس کو پاک رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پابند بنایا تھا۔ طبقاتی استحصال اور معاشرتی ناہمواریوں کے بدولت امیر، امیر تر ہوتا جا رہا تھا اور غریب غربت کی چکی میں پستا جا رہا تھا۔ سیاسی طور پر کئی خداؤں نے تمام تر وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر آزاد انسانیت کو ایسی ذہنی اور فکری غلامی میں دھکیلا تھا کہ وہ غلامی کو فطرت کا قانون سمجھ کر تسلیم کر بیٹھے۔ سماجی عزت کا دارومدار مردوں کی کثرت، آلات حرب و ضرب کی فراوانی اور زر و مال کے ڈھیر پر تھا۔ عورت نام سے شدید نفرت تھی اور ہر مرد یہ چاہتے ہوئے بھی کہ اس کے ساتھ شب باشی کیلئے خاتون میسر ہو، عورت کے جننے کو تیار نہ تھا اور بچی کی پیدائش کو باعثِ عار سمجھتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی سنتِ سئیہ اپنے عروج پر تھی۔ غیر اہم اور معمول کے واقعات پر بھی میدانِ جنگ سجتے تھے اور مدتوں فریقین اس خوشی نما غم کی کفیت سے دوچار رہتے تھے۔ ندیوں میں روانی کے ساتھ بہنے والے پانی کی طرح بلا جھجک انسانیت کا خون بہایا جا رہا تھا اور کوئی روک ٹوک کا نظام موجود نہ تھا۔ مصلح کا وجود قوم کیلئے بڑا المیہ تھا اور ہر وہ فرد قابلِ گرفت تھا جو ان کو سیدھی راہ پر لگائیں اگرچہ تاحال ایسا مردِ قلندر معاشرے میں پیدا نہیں ہوا تھا لیکن ان کی اکڑ و غرور کا مشاہدہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ منہ سے کلماتِ خیر نکالنا موت کو گلے لگانے سے کم نہ تھا۔

عین اس لمحے قدرت کا قانون حرکت میں آیا اور اس بگڑے ہوئے معاشرے کو لگام دینے اور راہِ راست پر لانے کیلئے محسنِ انسانیت، پیکرِ تقدس، شعلگیِ شمعِ حرم، تابشِ خورشید، آئینہِ حسنِ رخِ ارض و سماوات، فکرِ مکمل، رخِ فطرت، لبِ عالم، ہادیٔ کل، ختم رسل، رحمتِ پیہم، مقصدِ تخلیقِ زماں، حسنِ مجسم، پیغمبرِ فردوسِ بریں، ساقیِ کوثر، منزل ادراک، تاجورِ بزم شریعت، صادق و سجاد، سخی، صاحب اسرار، صابر و صناع، شاکر و مشکور، شکیلِ شبِ عالم سرمایہ تخلیق، قبلۂ جاں، مقصدِ تخلیقِ دو عالم، محور مہ و مہر، سالارِ قافلہ بنی آدم، رخ احساس، سلطانِ معظم سرورِ کائناتﷺ کی آمد کی خوشخبری ارض و سما اور ان مخلوقات کو جو زمین وآسمان کی وسعتوں میں منتظر تھیں، سننے کو ملتی ہیں اور ایک نئی امید جی اٹھتی ہے کہ اب مزید بھی سورج کو طلوع اور غروب ہونا ہے، دریاؤں اور جھیلوں کی رونقیں بحال رہے گی، پہاڑوں پر برف برستی رہی گی، پہاڑوں کی چوٹیوں سے پانی تاہم دریاؤں میں اترے گا، پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں گونجتی رہی گی اور اس وقت تک کوئی قیامت نہیں آئی گی جب تک محسنِ اعظمﷺ اس عالم کو امن و اطمینان کی روشنی سے چمکا نہ دیں۔ محسنِ اعظمﷺ پیدائش سے قبل ہی والد مکرم کے سایۂ عاطفت سے محروم رہے لیکن باوجود یتیمی کے آپ یتیموں کا سہارا بن کر افق پر نمودار ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں ایک لق دق، سنسان میدان میں ماں جی کو الوداع کہا اور قبر پر چمٹ کر یوں زار و قطار روئے کہ زمین وآسمان بھی اس درد سے کانپ اٹھے لیکن دنیا نے آپ کو ان کی طرح نہ پایا جو والدین کی پرورش کے بغیر پروان چڑھتے ہیں۔ آپﷺ کی پرورش آپ کے دادا اور چچا نے کی لیکن درحقیقت آپﷺ عالمِ بالا کے پرنور اور مبارک ہاتھوں کے زیرِ سایہ رہے۔ چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی تو درد، آزار، تنگی، تکلیف، مشقت، غم و الم کا وہ دور شروع ہوا جس کو بیان کرنے کیلئے چودہ سو سال سے سب مورخین اور لکھاری لکھ رہے ہیں لیکن جو بیتی ہے وہ لکھنے سے محسوس نہیں ہوتی۔ آپﷺ کا جنم بھوم میں رہنا دوبھر کیا گیا اور آپﷺ مشرکینِ مکہ اور کفار کی اذیتوں سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم پر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔ آپﷺ  کے دیرینہ ساتھیوں کو خون کے آنسو رولایا گیا لیکن وہ بھی آپﷺ  کے حقیقی جانثار تھے ان کو پہاڑوں جیسے بھاری بھرکم بوجھ اور دکھ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔ آپﷺ کو دیارِ غیر میں بھی چین سے رہنے نہ دیا اور وہاں گروہ در گروہ جاکر آپﷺ  کے خلاف زہر اگلا۔ لیکن پیکرِ صبر و تحمل ڈٹ کر کھڑا رہا اور تئیس سال کے مختصر عرصے میں صدیوں کا گند صاف کرکے جب مکہ مکرمہ میں بحثیتِ فاتح داخل ہوئے تو سر پر سیاہ عمامہ سجائے دل و زبان پر توحید کے نغمے جاری تھیں اور نظریں عجز و انکساری سے جھکی ہوئی تھی اور یوں عزت و افتخار سے سرزمین مکہ پر جلوہ افروز ہوئے کہ اہلیانِ مکہ انگشت بدنداں رہ گئے۔ لیکن نہ تو ان کو ٹوکا جنھوں نے گندگیوں کے ڈھیر سے آپ کو اذیت دی اور نہ ہی ان پر غصہ کیا جنھوں نے آپﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائیں۔ نہ ان سرداروں کو سولی پر چڑھایا جن کے اشاروں پر ناچتے ہوئے سب اہلِ باطل آپﷺ کے خلاف یکجا تھیں بلکہ ان کم ظرفوں کو بھی چند خصوصی اعزازات سے نوازا۔

افسوس صد افسوس! وہ کونسی راہ ہے جس پر محسنِ انسانیت نے راہنمائی نہ کی ہو؟ وہ کونسی گھاٹی ہے جس میں اترنا اور نکلنا آپﷺ نے نہ سکھایا ہو؟ اور وہ زندگی کا کونسا گوشہ ہے جس کے متعلق آپﷺ کے واضح ارشادات موجود نہیں؟ لیکن پھر بھی ہم بھٹکتے جا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، فرماتے ہیں کہ:

”آہ! اگر اس مہینے کی آمد تمہارے لیے جشن و مسرت کا پیام ہے، کیونکہ اسی مہینے میں وہ آیا جس نے ہمیں سب کچھ دیا تھا، تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں ماتم نہیں۔ کیونکہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا، وہ سب ہم نے کھو دیا! اس لیے اگر یہ ماہ ایک طرف بخشنے والے کی یاد تازہ کرتا ہے تو دوسری طرت کھونے والوں کے زخم کو بھی تازہ ہو جانا چاہیے!“

حقیقت یہی ہے کہ ہم وہ سب کچھ کھو چکے ہیں جو ہم کو محسنِ اعظمﷺ سے ملا تھا، ہم ان کے پیچھے چل پڑے جو فطرت سے عاری ہے اور انسانیت کے تقاضوں سے کورے ہیں۔ ہمیں جو رہنماء ملا تا قیامت اس کا مثل تو دور سایہ بھی کسی کو میسر ہونے کو نہیں، لیکن ہم زندگی کی راہوں میں ان کے پیچھے چل پڑے جو سر تا پا گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہے۔ یہ مقدس مہینہ ہم کو یہ احساس دلانے آیا ہے کہ ہم جہاں جا رہے ہیں، جہاں تک گئے ہیں وہی سے واپسی کا سفر شروع کریں اور محسنِ انسانیتﷺ کے مبارک طریقوں پر نکل پڑے، جس کی منزل فلاح و نجات ہے۔ جس پر چلتے ہوئے کہیں ٹھوکر نہیں لگتی نہ سرِ راہ کوئی گمراہ ہونے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی