حیلوں کی شرعی حیثیت، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ❸



حیلوں کی شرعی حیثیت، ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ❸

تیسری اور آخری قسط

🪶وسیم اکرم حقانؔی



حیلہ لفظی طور پر بدنام ہوا ورنہ بعض حیلے باعثِ اجر ہوتے ہیں اور ان کے بغیر آپ حرجِ عظیم میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں جو شرعاً مدفوع ہے۔ علماء احناف بالخصوص اور دیگر فقہاء کرام بالعموم، حیلوں کو تین اقسام میں تقسیم فرماتے ہیں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی اسلامی بینکنگ و فائنانس سسٹم پر وارد شدہ اعتراضات پر تبصرہ فرماتے ہوئے اس امر کو خوب واضح فرماتے ہیں، کیونکہ وہاں عام علماء کا یہ اشکال تھا کہ اسلامی بینکوں میں تمام تر معاملات حیلوں بہانوں پر طے پاتے ہیں۔ علامہ تقی عثمانی صاحب نے اس بحث کو مدلل بیان کرکے وہاں اقسام الحیل کو خوب واضح کیا، جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے:

پہلی قسم: وہ حیلے جن کا کرنا بھی ناجائز ہے، اور اگر کوئی کرے تو ان کا وہ اثر بھی شرعاً ظاہر نہیں ہوتا جو ان کا مقصود ہوتا ہے یعنی جس مقصد کیلئے حیلہ کیا جاتاہے وہ مقصد کسی مانع کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا اور حیلہ کرنے والے کا عمل بھی ناجائز ہوتا ہے۔ یہ عموماً دوصورتوں میں ہوتا ہے، ایک صورت یہ ہے کہ کسی حرام چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی لائے بغیر حیلے کے طور پر صرف اس کی ظاہری صورت بدل دی گئی ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہودیوں کے لئے چربی حرام کی گئی تھی تو انھوں نے اسے پگھلا کر استعمال کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ان پر لعنت فرمائی گئی۔ یہاں حلال کرنے کی غرض سے ان کا پھگلانا بھی ناجائز تھا، اور پگھلانے کے نتیجے میں وہ مقصد بھی حاصل نہ ہوا، یعنی چربی حلال نہیں ہوئی، کیونکہ پھگلانے سے چربی کی حقیقت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ اسی قسم کے حیلے ہیں جن کے بارے میں ایک مستند حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ:

"عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاترتكبوا ما ارتكبت اليهود فتستحلوا محارم الله بأدنى الحيل".


یا اس کی مثال حنفیہ کے قول کے مطابق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ:

"لا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة"


یعنی دو افراد کے قابل زکوۃ جانور اگر یکجا ہیں تو انھیں زکوۃ زیادہ ہو جانے کے خوف سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور اگر الگ الگ ہیں تو انھیں زکوۃ زیادہ ہونے کی وجہ سے یکجا نہ کیا جائے۔ یہاں اس بات سے منع فرمایا گیا ہے کہ زکوۃ کی مقدار کم کرنے کے لئے مویشیوں کو موجودہ حالت سے ہٹا کر یکجا یا الگ الگ کیا جائے، لہذا اس نیت سے ایسا کرنا ناجائز بھی ہے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو زکوۃ کم کرنے کے جس مقصد سے وہ ایسا کر رہا ہے حنفیہ کی تشریح کے مطابق وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔ یعنی اس عمل سے زکوۃ کم نہیں ہوگی بلکہ بدستور اتنی ہی واجب رہے گی جتنی اس عمل سے پہلے تھی۔ کیونکہ اس عمل سے دونوں افراد کی ملکیت کی حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے اور مرقات ( شرح مشکوٰۃ) میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر چہ کسی چیز یا معاملے کی صرف صورت ہی نہیں، حقیقت بھی بدلنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ بذات خود ایسا تھا کہ اس سے شرعاً مطلوبہ نتیجہ ظاہر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کسی شخص کا زکوۃ کا سال پورا ہونے لگے تو وہ زکوۃ سے بچنے کےلیے سال پورا ہونے سے پہلے اپنا قابلِ زکوٰۃ اثاثے اپنی بیوی کو ھبہ کر دے، لیکن اس کا قبضہ نہ دے۔ اس میں اول تو اس کا یہ عمل جائز نہیں، اور وہ زکوٰۃ سے فرار اختیار کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ اور دوسری طرف چونکہ قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے ہبہ ہی صحیح نہیں کیونکہ ھبہ کے لئے قبضہ شرط ہے، اس لئے اس سے شرعا وہ مقصد بھی حاصل نہ ہوگا جس کےلئے اس نے حیلہ کیا۔ چنانچہ وہ مال چونکہ اس کی ملکیت سے نہیں نکلا، اس لئے بدستور زکوٰۃ لازم ہوگی۔ مثلاً غیر مصرف زکوٰۃ میں زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کرنے کی غرض سے تملیک حیلہ کیا، لیکن اسکی شرائط پوری نہ کیں، یعنی زبانی تملیک کردی اور قبضہ نہ دیا، یا تملیک اس طرح کی کہ متعلقہ شخص نے اپنے آپ کو مالک ہی نہیں سمجھا، بلکہ وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا رہا تو ایسا کرنا بھی ناجائز ہے، اور اگر کر جائے تو اس کا اثر بھی شرعاً ظاہر نہ ہوگا۔


حیلوں کی دوسری قسم: وہ ہے جس میں حیلہ کرنے والے کو اپنی بدنیتی کا گناہ ہوتا ہے، لیکن اس نے جو حیلہ کیا ہے، اس کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص زکوٰۃ سے فرار اختیار کرنے کےلئے سال گذرنے سے پہلے اپنا مال اپنی بیوی کو ہبہ کرکے قبضہ دیدے، یا اس سے کوئی چیز خرید لے جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔ اس صورت میں زکوٰۃ سے فرار اختیار کرنے کا گناہ ہوگا لیکن حیلے کا یہ اثر ظاہر ہو جائے گا کہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، کیونکہ وجوب زکوٰۃ کے وقت وہ مال اُس کی ملکیت سے نکل چکا ہے۔


حیلوں کی تیسری قسم: وہ ہے جہاں حیلہ کرنا گناہ بھی نہیں ہوتا، اُس حیلے کا شرعی اثر بھی ظاہر ہو جاتا ہے، یعنی جس مقصد کےلئے حیلہ کیا گیا وہ جائز طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو جس حیلے کی تقلین فرمائی گئی یا حضور اقدس اللہ علیہ وسلم نے خیبر کھجوروں بارے میں جو حیلہ بتایا، وہ اسی قسم کا حیلہ تھا۔

اب عام طور پر علماء حیلوں میں ماہر ہوتے ہیں، اور حال ہی میں مجھے بتایا گیا کہ مولوی تو حیلہ سازی میں ماہر ہوتے ہیں، ہر بات کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں، لیکن اب یہ سوال برقرار رہے گا کہ حیلوں کی اجازت کس زاویہ میں دی جائے کہ لوگ خواہ عوام ہو یا خواص، حیلہ جوئی کی آڑ میں شریعت کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس کیلئے سیدھی تعبیر یہی ہے کہ ان تین اقسام الحیل میں قسم ثالث پر عمل کیا جائے اور حرام سے بچنے و مباح یا جائز تک پہنچنے میں اس سے مدد لی جائے لیکن اس کے علاوہ حیلوں بہانوں پر یقین رکھنا شرعاً و اخلاقاً جرم ہے۔

(ختم شد)


سابقہ قسطیں

پہلی قسط

دوسری قسط

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی