کام گزرا ہے مِرا گریۂ آدم سے بھی
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلاشبہ انسان اس عالم مادی میں بسنے والے تمام مخلوقات میں اشرف و اکرم مخلوق کا نام ہے لیکن اس بزرگ تر و فیاض انسان کا وجود کیوں ضروری سمجھا گیا اور قدرت خداوند نے اس کو عدم محض کی لامحدود وسعتوں سے کیوں باہر نکالا؟ انسانی وجود کوئی حادثہ اور آفتِ ناگہانی تو ہرگز نہیں کہ بغیر کسی تمہید و آغاز اور ربط و ضبط کے انسان نما مخلوق کو ایک بڑے پردے پر ظاہر کیا گیا اور پھر بعد از تخلیق، خالق اس وجود کی گھتیاں سلجھانے بیٹھ گیا بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خالقِ کائنات کی قدرت و اختیار جس طرح ہر چیز پر حاوی ہے اسی طرح علمِ الہی سے بھی کوئی چیز باہر نہیں۔ احادیث مبارکہ اس پر دال ہے اور ایک حدیث قدسی کا مفہوم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قبل از تخلیقِ کون و مکاں ذاتِ الہی ایک خزانے کی طرح مخفی خزانہ تھا، تب اللہ تعالیٰ نے اپنی وجود و پہچان کو ظاہر کرنا چاہا جس کےلیے کائنات میں جاری دھمال و دھما چوکڑی کو نعمتِ وجود سے بہرہ ور کرنا پڑا۔ تخلیق کائنات میں انسان کے علاوہ بےشمار مخلوقات خشکی اور تری پر آباد ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات کے عظیم اور قابلِ اعزاز شان و توقیر سے یاد کیا گیا ہے۔ اس پراسرار حقیقت تک رسائی کےلیے آج تک اہل عقل و دانش مغز کپائی میں مصروف ہے کہ اشرف المخلوقات انسان ہی کیوں؟ اگر ظاہری وضع قطع، جسامت، رنگ و مہک کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات ہے تو ان حیوانات کو بھی اس شرف سے محروم نہیں رکھنا چاہیے جو وضع میں انسان سے زیادہ دلکش، جسامت میں قوی تر اور زیادہ خوش رنگ و آہنگ ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ ان حقائق کے باوجود انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس طویل بحث میں الجھنے سے بہتر ہے کہ کوئی محکم رائے اور راہ پر غور کیا جائے جو انسان کی حقیقی کمالات کو بطریقہ اتم و احسن واضح کرسکے۔
فلسفۂ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تناظر میں انسان دیگر حیوانات سے تین بنیادی وجوہ سے ممتاز ہے۔ یعنی تین ایسے ستون ہیں جس پر انسانی شرافت کی عمارت قائم ہے، ان میں اگر ایک بھی منہدم یا کمزور ہوا تو شاید عمارتِ انسانی تو قائم رہے لیکن وہ ٹھاٹ باٹ، وہ مقام و مرتبہ قائم رکھنا مشکل ہو۔
انسان اور حیوان میں بنیادی فرق رائے کلی کا ہے، کہ انسان کلی رائے رکھتا ہے اور خود کیلئے جینے کے بجائے دوسروں کی فلاح و بہبود کیلئے ہمہ تن متحرک و سرگرم انسان ہمیشہ دوسروں کے فائدے کیلئے سوچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انسانیت قائم رہتی ہیں وہاں اکثر خوشیاں اور راحتیں راج کرتی ہیں کیونکہ وہاں ہر انسان اپنے حقوق کو دبانے کا عادی بن جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی اپنے ذمے لازم سمجھتا ہے۔ یہی روش حقیقی فلاحی معاشرے کی تشکیل میں موثر کردار کے طور پر کام کرتا ہے۔ جہاں زندگی فقط اپنے لئے جینے کا نام ہو وہاں بہت سی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں اور استحصالی نظام پروان چڑھتا ہے۔ اسی انقلابی طرزِ معاشرت کو ہم خیر القرون کے زمانے میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک عظیم سپہ سالار یا وقت کا سپریم پاور اپنے منہ سے نوالہ واپس کرکے فقیر کو دیتا ہے اور ساتھ ہی معذرت بھی پیش کرتا ہے کہ میں یہ جاننے میں ناکام رہا کہ آپ حاجتمند ہے۔ اب اسی سوچ اور رائے کے تناظر میں انسان خود سے نکل کر گھر، خاندان، علاقے اور ریاست کیلئے سوچنا شروع کرتا ہے جس سے دیگر مخلوقات عاری ہے ان کے نزد زندگی کا یہی مفہوم ہے کہ بس اپنا کام چلانا چاہیے باقی کوئی بھوک سے مرے یا دہشت کی لپیٹ میں سسک سسک کر جان دے دیں۔
دوسرا اہم فرق و امتیاز جو ہر ذی شعور انسان کے فطرت میں جاگزیں ہے، وہ جمال و نفاست ہے کہ انسان دیگر حیوانات کی طرح اکل و شرب کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے اور رہن سہن کیلئے مقام اور مستقر کی تلاش میں بھی مارا مارا پھرتا ہے اور ساتھ ہی نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے بھی قدم اُٹھاتا ہے لیکن ان کے مابین امتیازی فرق ہے۔ حیوانات رہن سہن کیلئے مقام و مکان کا حال نہیں دیکھتے، بس جہاں جی چاہا وہاں آرام فرما ہوئے، جہاں غلاظت کی وہاں نیند بھی پوری کی، اسی طرح کھانے کو کچھ ملا جہاں ملا کھڑے کھڑے منہ مار لیا، پینے کو صاف پانی ملا یا بدبودار وہ پی جاتے ہیں۔ اسی طرح جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے زیادہ تگ ودو نہیں کرتے، بس کم از کم اپنے ہم جنس کو تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ رہن سہن کیلئے پرفضاء مقام کا تعین کرتا ہے، ایک عالی شان محل تعمیر کرتا ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید آرام دہ آسائشوں کو استعمال میں لا کر مقام کی تزئین کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ کھانے میں بھی لذیذ اور مرغوب غذاؤں کا انتخاب کرتا ہے اور الگ الگ ذائقوں کو یکجا کر کے استعمال کرتا ہے، اور پینے میں بھی صاف و شفاف پانی کو تلاش کر کے پاک و صاف برتن میں جمع کرکے اپنی تشنگی بجھاتا ہے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے خوبرو دوشیزہ کو پسند کرتا ہے۔ خود کتنا بدصورت ہو لیکن رفیقہ حیات ملکہ حسن کو تلاش کرے گا اور یہی وہ امتیازی پہلو ہیں جو حیوانات اور انسانوں میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اب اگر کوئی انسان اپنے فطرت کو مسخ بھی کر لے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ امتیاز حیوانات سے ضرور روا رکھے گا۔
تیسرا پہلو جس کی بنیاد پر انسان حیوانات سے ممتاز اور الگ ہے وہ ایجاد و تقلید کا پہلو ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے کہ انسانی عقول میں باہمی تفاوت اس طرح مسلم ہے جس طرح طبائع اور خصائل کا اختلاف مانا گیا ہے کہ سب انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہوتی بلکہ ان کے مابین بہت فرق اور تفاوت پایا جاتا ہے، کہ ایک انسان عقل کامل رکھتا ہے تو اس کا فرزند یا بھائی عقل کے لحاظ سے بلکل بدھو ہوتا ہے۔ جبکہ کبھی کبھار ایک احمق باپ کا بیٹا ذہن اور تیز دماغ کا مالک نکلتا ہے۔ اب چونکہ انسانی زندگی کا مدار باہمی تعاون اور تعلق کے بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے کے ساتھ ایسا باندھ کر رکھ دیا کہ کوئی انسان بھی اس مادی دنیا میں خودمختار بن کر نہیں جی سکتا۔ آپ کے پاس لاکھ وسائل ہو، ہر چیز میسر ہو، لیکن آپ کا واسطہ پھر بھی کسی اور فرد سے ضرور پڑے گا کیونکہ آپ گھر میں پیسوں کے ڈھیر تو جمع کرسکتے ہیں لیکن اناج نہیں اگا سکتے، آپ گاڑی تو رکھ سکتے ہیں لیکن اس کیلئے زمین کی تہہ سے پٹرول نہیں نکال سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی خودمختار نہیں، ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے، اس تعلقِ مفاد کی وجہ سے ہر انسان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مفادات کے تعلق کو بہتر طریقے سے نبھائیں۔ کم دے کر زائد حاصل کریں، کم محنت سے زائد نفع حاصل کریں، قلیل وقت میں کثیر محاصلات کا حصول ممکن بنائیں۔ اس مشن کیلئے انسان ہر وقت سوچ و بچار میں رہتا ہے اور ایجادات کے نت نئے طریقوں پر غور کرتا ہے، تو جو عقل میں کامل ہوتا ہے تو وہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور ایسا آلہ یا طریقہ ڈھونڈ نکالتا ہے کہ کم وقت میں، کم محنت سے زیادہ معیار و مقدار میں فوائد حاصل کرنا ممکن ہو۔ اس کے نتیجے میں یہ عاقل فرد ایجاد کرتا ہے اور تمام افرادِ انسانیت اجتماعی طور پر اس ایجاد سے نفع حاصل کرتے ہیں۔ اب چونکہ یہ فکر تمام افراد کو یکساں لاحق ہوتی ہے لیکن عقول میں تفاوت کی وجہ سے کچھ لوگ منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور کچھ لوگ ایجادات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ تو وہی نسبتاً کم عقل لوگ تقلید کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور یہی خاصہ انسان ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ مصنوعی روشنی کی ضرورت تمام انسانوں کو یکساں تھی اور سب بلاتفریق اس پر غور و خوض بھی کر رہے تھے کہ کسی طرح مصنوعی روشنی کا انتظام کیا جائے کہ رات کے اندھیرے میں بھی اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے ہاتھ پاؤں مار سکے، لیکن بجلی وغیرہ کی ایجاد تک ہر کسی کو رسائی نہ تھی بلکہ ایک فرد اس منزل تک پہنچ گیا اور باقی افراد نے خاموشی سے اسی ایجاد سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ یعنی موجد ایک ہوا اور مقلدین بےشمار!