فتنہ انگیز مرکز کی بیخ کنی
🪶وسیم اکرم حقانؔی |
”کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔“
پیغمبر انقلابﷺ کے مبارک زبان سے یہ اعلان سن کر تمام صحابہ کرام بہت خوش ہوئے کہ فتح تو یقینی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی پیش گوئی کبھی خلافِ واقع ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ کرام اس سعادت مندی اور اعزاز کے خواہش مند بھی تھے کہ یہ مضبوط عسکری اساس گاہ ان کے ہاتھوں فتح ہو۔ اگلے روز صبح حضور نبی کریمﷺ نے اپنے چچازاد بھائی اور داماد، چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا۔ اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ آشوبِ چشم کی تکلیف میں مبتلا تھے جس کے متعلق حضور نبی کریمﷺ کو آگاہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی علی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے اپنا لعابِ دہن ان کی آنکھوں میں لگایا جس کے بعد تا زندگی انھیں کبھی آشوب چشم نہیں ہوا۔ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جھنڈا دے کر قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔
یہ سات ہجری کا واقعہ ہے اور صلح حدیبیہ کو ایک سال ہوچکا ہے۔ مسلمان مکہ مکرمہ میں موجود اپنے خونی دشمنوں سے کسی حد تک محفوظ ہوگئے ہیں اور اب سازشوں کے مرکز خیبر کی خبر لینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہودیوں کا مرکز خیبر جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں واقع تھا اور اس وقت تک یہ وہ محفوظ اساس گاہ تھی جہاں سے اہلیانِ خیبر دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ غزوہِ خندق میں خیبر کے یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا اور قبیلہ بنو نظیر جنھوں نے خندق کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی، کو خیبر میں پناہ دے کر مسلمانوں کو شدید نفسیاتی نقصان پہنچایا۔ مسلمان یہودیوں کے ان سازشوں سے خوب واقف تھے اور مزید پیغمبر انقلابﷺ اور مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس فتنہ کی سرکوبی کرنی چاہیے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سپہ سالار اعظمﷺ نے سولہ سو کا لشکر ساتھ لیا اور خیبر کی طرف جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے۔ خیبر حجاز کا بڑا زرخیز علاقہ تھا جس کو تجارتی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت حاصل تھی، یہاں کے یہود اقتصادی حیثیت سے بہت ممتاز تھے۔ مسلمانوں نے چھوٹے قلعوں کو فتح کرنے کے بعد قلعہ خیبر کا محاصرہ کیا جو دشمن کا سب سے بڑا اور اہم قلعہ تھا۔ یہ قلعہ ایک نسبتاً اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور اس کا دفاع بہت مضبوط تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق مسلمانوں نے پہلے پانچ قلعوں کو ایک ایک کر کے فتح کیا جس میں پچاس مجاہدین زخمی اور ایک شہید ہوئے۔ یہودی رات کی تاریکی میں ایک سے دوسرے قلعے تک اپنا مال و اسباب اور لوگوں کو منتقل کرتے رہے۔ باقی دو قلعوں میں قلعہ قموص سب سے بنیادی اور بڑا تھا اور ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ حضور نبی کریمﷺ نے باری باری حضرت ابوبکر رَضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رَضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن عبادہ رَضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں افوج اس قلعہ کو فتح کرنے کےلیے بھیجیں، مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے، پھر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
”کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ جھنڈا حوالے کیا گیا اور انھوں نے بھرپور حملہ کیا۔ دورانِ جنگ شیرِ خدا نے مرحب نامی یہودی کو ہلاک کیا جس سے سب یہودی خوفزدہ ہو کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قلعہ کا دروازہ جو بیس آدمی کھولتے تھے، اکھاڑ لیا اور اسے قلعہ کے دروازہ کے سامنے والی خندق پر رکھ دیا تا کہ فوج گھڑسواروں سمیت قلعہ میں داخل ہو سکیں۔ اس فتح میں 93 یہودی ہلاک ہوئے اور قلعہ فتح ہو گیا۔ مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی اور پیغمبر انقلابﷺ نے یہودیوں کو ان کی خواہش پر پہلے کی طرح خیبر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے اور مسلمان جب مناسب سمجھیں گے انھیں خیبر سے نکال دیں گے۔ اس جنگ میں بنی نضیر کے سردار حئ بن احطب کی بیٹی صفیہ بھی قید ہوئیں جن کو آزاد کر کے نبی کریمﷺ نے ان سے نکاح کر لیا۔ مسلمانوں کو اس جنگ سے بھاری تعداد میں جنگی ہتھیار ملے جن سے مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی۔ اس جنگ کے بعد حضرت جعفر طیار رَضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ سے واپس آئے تو حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ:
”سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس بات کےلیے زیادہ خوشی مناؤں، فتحِ خیبر کے لیے یا جعفر کی واپسی کے لیے“۔