فاتح مکہﷺ کا انتقام
"لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ"
آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
یہ سن کر حاضرین مجلس کو یقین نہیں آیا کہ ایک فاتح و غالب جو اس سے قبل مغلوب تھا اور جس کو شدید ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کے ساتھیوں کا جینا حرام کیا گیا اور اب وہ قدرت کے باوجود یوں عام معافی کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایک متعصب لکھاری نہ چاہتے ہوئے بھی لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے وہ عظیم رہنما جو مکہ پر قابض ہوئے، نے حاضرین مجلس سے سوال پوچھا کہ:
”بولو! تم کو کچھ معلوم ہے؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں‘‘۔
اس دہشت سے بھرپور سوال سے انھوں نے یہ جان لیا کہ یہ فاتح سب سے الگ الگ طرح کا انتقام لے گا۔ ہر کسی کو بھرپور اذیت سے مار گرائے گا، کسی کو بھی معاف نہیں کرے گا۔ لیکن ان کا یہ خیال تب غلط ثابت ہوا جب رحمۃ اللعالمینﷺ نے انتہائی سنجیدگی اور متانت سے ارشاد فرمایا کہ:
”لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ“
آج وہ تاریخی دن ہے، حضور نبی کریمﷺ فاتح و غالب کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے لیکن محسنِ اعظمﷺ نے مکہ کی سرزمین پر پہلا قدم رکھتے ہی اپنا پہلا اور عظیم الشان فرمان جاری فرمایا جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں۔ محسن اعظمﷺ نے عام اعلان فرمایا کہ:
’’جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کےلیے امان ہے۔“
ان الفاظ کے ظاہر پر نہیں بلکہ اس ماحول میں رکھ کر ان پر غور کیجئے کہ محسن انسانیت، پیغمبر انقلابﷺ سے بڑھ کر کون انسانیت کا خیرخواہ ہو سکتا ہے جو فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی رویہ و طرزِ عمل سادگی و اخلاص اور اپنائیت سے بھرپور ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ اس موقع پر حضرت عباس رضی ﷲ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ: ”یا رسول اللہﷺ! ابوسفیان ایک فخر پسند آدمی ہے اس کےلئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہو جائے۔“
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کےلئے امان ہے“۔
اسکے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگے کہ:
”اے قریش! محمد(ﷺ) اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کےلئے امان ہے۔“
یہ دن بھی اہلِ مکہ کو دیکھنا پڑا کہ ابوسفیان جیسے سخت جان اور خوددار سردار کے منہ سے ایسی بات نکل رہی ہے۔ ابوسفیان کی اپنی اہلیہ ہند بنت عتبہ تو یہ سن کر جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ:
”اے بنی کنانہ! اس کم بخت کو قتل کر دو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا ہے۔“
یہ چیخ و پکار سن کر بنوکنانہ واقعی ابوسفیان کے مکان پر چڑھ دوڑے لیکن ابوسفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمد(ﷺ) کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انھوں نے اعلان کردیا ہے کہ جو ابوسفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے؟ ابوسفیان نے بتایا کہ محمد(ﷺ) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجدحرام میں داخل ہوجائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ ابوسفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابوسفیان کے مکان میں چلا گیا، کوئی مسجدحرام کی طرف بھاگا، کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور اب محسن اعظمﷺ کے سامنے ہزاروں کا مجمع سر جھکائے، نگاہیں نیچی کیے ہوئے لرزاں و ترساں کھڑا ہے اور ہر فرد کو اپنا ظلم یاد آ رہا ہے جو انھوں نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام پر ڈھایا۔ حضور نبی کریمﷺ کےلیے راستوں میں کانٹے بچھانے والے، آپﷺ پر پتھروں کی بارش برسانے والے کھڑے سوچ رہے ہیں، تو وہ لوگ بھی خوف سے کانپ رہے ہیں جنہوں نے حضور نبی کریمﷺ پر متعدد بار قاتلانہ حملے کیے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی ذہن میں خود کےلیے سزا تجویز کر رہے ہیں، جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ سفاک بھی منہ چھپائے کھڑے تھے جنہوں نے رحمۃ اللعالمینﷺ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹا۔ محسن اعظمﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعال عنہا تک کو معاف نہ کرنے والوں پر بھی قیامت بیت رہی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے۔ وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پروانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن حارثہ رضی ﷲ تعالی عنہم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دئیے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے۔ اس مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نگاہِ رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ:
”بولو! تم کو کچھ معلوم ہے؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں“
ہائے! مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ:
”اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ“
آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔
”لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ“
یہ وہ اعلان ہے جس نے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، اور کم از کم ہم جیسے تنگ نظروں کو غور کرنے پر مجبور کیا کہ اگر دین و مذہب کی ترویج کا بیڑا اٹھایا گیا تو مشقتوں اور مصیبتوں کو گلے لگانا ضروری ہے اس سے کوئی مفر نہیں، تو وقت آنے پر انتقام لینا یا انتقامی کارروائی سے دین و مذہب کی ساکھ اور روح کو مجروح کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس عمل کا شاہکار نمونہ ہم پیغمبرانقلابﷺ کے اس اعلان میں دیکھتے ہیں۔