فتح مکہ
چند سال قبل مکہ مکرمہ سے نکالے جانے والے پیغمبر انقلابﷺ آج اپنے آبائی شہر (مکہ مکرمہ) میں فاتحانہ انداز سے داخل ہو رہے ہیں۔ بارہ ہزار کا لشکر ساتھ ہے۔ حضور نبی کریمﷺ سر پر سیاہ عمامہ سجائے اونٹنی پر سوار ہیں۔ زبان پر سورہ فاتحہ اور شکر و سپاس کے کلمات جاری ہے اور سر مبارک عجز و انکساری سے جھکا ہوا ہے۔ ارد گرد صحابہ کرام چل رہے ہیں اور نعرہ تکبیر کی صداؤں میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور فتح عظیم کا اعلان کیا۔
سن چھ ہجری میں مسلمان عمرہ کی ادائیگی اور زیارتِ بیت اللہ کی غرض سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور مشرکین مکہ نے حضورﷺ کو صحابہ کرام کے ہمراہ روک لیا اور عمرہ ادا کرنے سے منع کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کے مابین صلح حدیبیہ کے نام سے ایک اہم معاہدہ طے پایا۔ صلح حدیبیہ سے قریش و مسلمانوں کے مابین کشیدگی اور بدامنی کی صورتحال میں واضح کمی محسوس کی گئی اور اس معاہدے سے معاشرے میں امن و امان کی ایک نئی روح پھونک دی۔ اس معاہدہ میں فریقین کے علاؤہ دیگر تمام قبائل کو اختیار دیا گیا کہ جس کے ساتھ یہ قبائل الحاق کرنا چاہے وہ الحاق کر لیں۔ اب مکہ مکرمہ میں دو بڑے قبائل آباد تھے یعنی قبیلہ بنو بکر اور قبیلہ بنو خزاعہ، ان کے مابین اکثر کشیدگی اور جنگ کی صورتحال رہتی تھی لیکن صلح حدیبیہ کے بعد کچھ وقت تک ان کے مابین معاملات بہتر ہوگئے۔ اس معاہدہ کے تحت بنو خزاعہ حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ شامل ہوگئے، جبکہ بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ قریش مکہ نے معاہدہ کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ان کو ہتھیار فراہم کیے بلکہ قریش مکہ کے کئی لوگ نقاب اوڑھ کر ان کے ساتھ جنگ میں باقاعدہ شریک رہے اور اپنی طرف سے ان کو بھرپور نقصان پہنچایا۔ دستیاب معلومات کے مطابق بنو خزاعہ حرم تک پہنچ گئے اور ان سے امن کی درخواست کی لیکن حرم کا بھی لحاظ نہ رکھا۔
دربارِ رسالتﷺ میں یہ خبر پہنچ گئی اور اس ظلم و بربریت سے پیغمبرِ انقلابﷺ کو آگاہ کیا گیا جس پر حضورﷺ نے شدید برہمی اور ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون اور مدد کی یقین دہانی کرائی۔ مشرکین مکہ کی یہ عہد شکنی، دست درازی اور ظلم و جبر صلح حدیبیہ کا اختتام ثابت ہوا۔ جنگ بندی کے بعد اسلام کافی حد تک پھیل چکا تھا اور بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور یوں مسلمان اس وقت ایک مستقل قوت کی حیثیت سے نقشے پر ابھر رہے تھے۔ مشرکین مکہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس جرم کے بھیانک نتائج نے ان کا جینا حرام کیا اور سب اس سوچ و بچار میں مشغول ہوگئے کہ اب کس طرح مسلمانوں سے جان چھڑائیں۔ ابوسفیان جو مشرکین کے سرداروں میں سے تھے، نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ ضرور لیں گے اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کے طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان کی صاحب زادی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور نبی کریمﷺ کی نکاح میں تھیں، اور ابوسفیان اپنی بیٹی امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر اس نیت سے پہنچے کہ وہ حضور نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کو امن معاہدہ جاری رکھنے پر آمادہ کریں۔ سو وہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور مشہور واقعہ ہے کہ انھوں نے حضور نبی کریمﷺ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بستر اور چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے؟ تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ:
”آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ نبی کریمﷺ کی جگہ پر بیٹھیں“۔
ابوسفیان کو یہ بات سخت ناگوار گزری لیکن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس کی پرواہ ہرگز نہ کی۔ ابوسفیان نے صلح کی تجدید کےلیے حضور نبی کریمﷺ سے رجوع کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ سخت غصے اور مایوسی میں اس نے تجدیدِ صلح کا یکطرفہ اعلان کیا اور مکہ واپس چلا گیا۔
قبیلہ بنو خزاعہ کی فریاد اور مشرکین مکہ کی عہد شکنی پر حضور نبی کریمﷺ نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ بنو خزاعہ نے اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھیجا تھا جس نے دردناک اشعار پڑھے اور بتایا کہ وہ 'وتیرہ' کے مقام پر رکوع و سجود میں مشغول تھے تو قریش نے ان پر حملہ کر دیا اور ہمارا قتلِ عام کیا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اسلامی فوج کو تیار کیا اور مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ ملایا اور فتح مکہ کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا عزم کیا اور اس فیصلے کو فی الحال راز میں رکھا گیا۔ جبکہ مدینہ سے باہر جانے والے راستوں پر نگرانی بھی کروائی تا کہ یہ خبریں قریش کا کوئی جاسوس باہر نہ لے جائے۔ بہرحال مسلمانوں کا ایک عظیم لشکر حضور نبی کریمﷺ کی قیادت میں مدینہ منورہ سے نکلا اور کسی کو بھی منزل معلوم نہ تھی لیکن سب حضور نبی کریمﷺ کی اتباع میں روانہ ہوئے۔