انا النبی لا کذب (غزوۂ حنین)



اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

🪶وسیم اکرم حقانؔی




بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اور حنین کے دن کو یاد کرو جب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔“


دو ہزار نومسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے جنگ کی شدت و سختی دیکھ کر ایک دم سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور نبی کریمﷺ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ مگر رسول اللہﷺ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی، بلکہ آپﷺ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپﷺ کے زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ:

اَنَا   النَّبِیُّ  لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ


تاریخ اسلام کے معتبر کتب سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ عمومی طور فتح مکہ کے بعد تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے اور اکثر لوگوں نے بغیر مزاحمت کے اسلام قبول کیا۔ ان میں اکثر وہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پس جوں ہی مکہ مکرمہ فتح ہوا تو انھوں نے اپنے اسلام لانے کا آزادانہ فیصلہ اور اعلان کیا۔ مزید چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور نبی کریمﷺ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

”اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰهِ وَالۡفَتۡحُۙ۞ وَرَاَيۡتَ النَّاسَ يَدۡخُلُوۡنَ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اَفۡوَاجًا۞ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَاسۡتَغۡفِرۡهُ‌ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۞“

”جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے۔ اور (اے نبیﷺ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کریں،  اور اُس سے مغفرت کی دُعا مانگیں، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔“

فتح مکہ کے موقع پر یہی ہوا کہ سب لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوگئے اور باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتح مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ حضور نبی کریمﷺ نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ قبائل جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں اور قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تا کہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔

پیغمبرِ انقلابﷺ نے بھی بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا۔ جب دشمن سے سامنا ہوا تو پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نومسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔

اس مشکل وقت میں بھی حضور نبی کریمﷺ مضبوطی سے کھڑے رہے اور آپﷺ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے داہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ: یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ!

 فورًا آواز آئی کہ: ”ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲﷺ!“

 پھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ: یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ!

 فوراً آواز آئی کہ: ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲﷺ!

عباس ؓ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے، آپﷺ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انھوں نے جو یَامَعْشَرَ الْاَنْصَار اور یَالَلْمُھَاجِرِیْنَ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدہام کی و جہ سے نہ مڑ سکے انھوں نے ہلکا ہونے کےلیے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہوگئے، جو رہ گئے گرفتار ہوگئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلمانوں سے لڑتی رہیں، یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہوگیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے اور فتحِ مبین نے حضور رحمةُ لِّلعالَمِینﷺ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی