خلوا بنی الکفار عن سبیلہ (عمرة القضاء)



خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ

🪶وسیم اکرم حقانؔی



دربار نبوت کے عظیم شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے چل رہے ہیں اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے جا رہے ہیں کہ؂

خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ

اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ

"اے کافروں کے بیٹو! راستہ چھوڑو (سامنے سے ہٹ جاؤ.) آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔"

ضَرْبًا یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہٖ

وَیُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ

"ہم تلوار کا ایسا وار کریں گے جو سر کو اس کی خوابگاہ سے الگ کردے اور دوست کی یاد اس کے دوست کے دل سے بھلا دے۔" 

فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے شاعرِ رسول حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ٹوکا اور فرمایا کہ:

”اے عبداللہ بن رواحہ! رسول اللہﷺ کے آگے آگے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو؟“


رسالت مآبﷺ کی رحمت جوش میں آئی اور فرمایا کہ:

”اے عمر! ان کو چھوڑ دیجئے! یہ اشعار کفار کے حق میں تیروں سے بڑھ کر ہیں۔“

یہ سات ہجری کا واقعہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ اپنے ان تمام رفقاء کے ساتھ عمرة القضاء کی ادائیگی کےلیے جا رہے ہیں جن ساتھیوں کے ساتھ آپﷺ کو گزشتہ سال روکا گیا تھا۔ صلح حدیبیہ کے شرائط میں سے ایک اہم اور کلیدی شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ ادا نہیں کریں گے، بلکہ اگلے سال عمرے کی ادائیگی کےلیے آئیں گے اور وہ بھی یہاں تین دن کا مختصر قیام کریں گے۔ نیز صلح میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ مسلمان مکہ مکرمہ بغیر ہتھیار کے آئیں گے۔ اگلے سال یعنی سات ہجری کو پیغمبرِ انقلابﷺ  نے اعلان فرمایا کہ:

”جو ساتھی گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب عمرہ ادا کرنے کیلئے میرے ساتھ چلیں“۔

وہ سب لوگ تیار ہوگئے بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ پر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کیا اور عمرہ کی ادائیگی کےلیے صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے، اور مسلمانوں کی تعداد دو ہزار کی لگ بھگ تھی جس میں کچھ لوگ سواریوں پر جبکہ اکثر پیدل سفر کر رہے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کو کفار کی عہد شکنی کا خطرہ لاحق تھا اسلئے آپﷺ مدینہ منورہ سے تھوڑی بہت جنگی تیاری کے ساتھ نکلے۔ ادھر کفار مکہ کو یہ خبر لگ گئی کہ حضور نبی کریمﷺ ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انھوں نے چند آدمیوں کو صورت حال کی تحقیق کا حکم دیا۔

مسلمانوں کی طرف سے ان کو اطمینان دلایا گیا ہم معاہدہ شکنی نہیں کریں گے۔ نہ ہی ہم جنگ کے ارادے سے آئے ہیں۔ ہم شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفار قریش مطمئن ہوگئے۔ حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور سب ’’لبیک‘‘ پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے۔ جب مکہ میں داخل ہونے لگے تو دربار نبوت کے شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے  کہ؂

خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ

اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ

ضَرْبًا یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہٖ

وَیُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ


حضور نبی کریمﷺ تمام صحابہ کرام کے ساتھ حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو کفار کےلیے یہ منظر قابلِ برداشت نہ تھا اور مارے جلن کے پہاڑوں پر چلے گئے۔ مگر کچھ کفار اپنے دارالندوہ (کمیٹی گھر) کے پاس کھڑے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بادۂ توحید و رسالت سے مست ہونے والے مسلمانوں کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے؟ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے مسجد حرام میں پہنچ کر ’’اضطباع‘‘ کرلیا، یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ”خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔“

اس سفر کے موقع پر حضور نبی کریمﷺ نے ام المؤمنین حضرت امی میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھی ارسال کیا جس کو امی جان نے قبول فرماتے ہوئے نکاح کا اختیار حضور عباس رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا اور مقام سرف میں ان نکاح کا عمل مکمل کیا گیا۔ عقدِ نکاح کے بعد رسول اللہﷺ کا مہمانوں کی دعوت کا اِرادہ تھا کہ امی میمونہ رضی اللہ عنہا کے رِشتے داروں سمیت دیگر قریش کو مدعو کریں گے، لیکن قریش اِس بات پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس لئے جب حضور نبی کریمﷺ کی مکہ مکرمہ میں قیام کی مدت ختم ہوئی اور آپ واپسی روانہ ہوئے تو اسی مقام سرف میں رخصتی کا عمل بھی مکمل ہوا۔ امی جان کا انتقال اور تدفین بھی اسی مقام سرف میں کئی گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی