میں تمہارے لیے کافی نہیں



میں تمہارے لیے کافی نہیں

🪶وسیم اکرم حقانؔی



”اے لوگو! اے گروہِ انصار!

مجھے بتاؤ! کیا آپ کی نظروں میں بھی مال و زر کی قیمت بڑھ چکی ہے؟ کیا آپ لوگ بھی اب قیمتی اموال اور وسائل سے مرغوب ہوتے ہیں؟ آپ تو وہ قلندر صفت تھے جن کی نگاہوں میں یہ زرق برق مناظر کچھ نہ تھے۔ ان مال و زر کی حیثیت تمھاری نگاہوں میں دھوکے سے بڑھ کر نہ تھی۔ اب کیا تم بھی اس دنیا کے آسائش و سہولیات کے درپے ہو؟ مجھے جواب دو! میں آپ سے مخاطب ہوں! ذرا مجھے بتائیں کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ باقی قبائل اپنے گھروں کو قیمتی اموال، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، قیمتی جنگی گھوڑوں اور اونٹوں سمیت سونا چاندی کے ڈھیر کے ساتھ لوٹے اور تم لوگوں کے ساتھ میں واپس لوٹ جاؤں؟ کیا تمہارے لئے میں کافی نہیں؟ میرے ہوتے ہوئے تم لوگ مزید کی امید یا آس کیسے لگا سکتے ہو؟ جواب دیجیے گا! اے معشر الانصار! خاموش نہ رہیں! مجھے بتائیں!

اے گروہ انصار!

یہ کیا باتیں ہیں جو میں تمہاری طرف سے سن رہا ہوں؟ کیا تم گمراہ نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمھیں میرے وسیلے سے ہدایت نہیں دی؟ کیا تم غریب و نادار نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمہیں بےنیاز اور غنی نہیں کیا؟ کیا تم آپس میں دشمن نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمہیں متحد نہیں کیا؟ کیا تم جواب نہیں دیتے؟" جواب دیجئے! میں آپ کو سن رہا ہوں۔ کیوں خاموش ہیں آپ؟ اے گروہِ انصار! جواب دیجئے!“

مجلس میں مکمل خاموشی تھی، سب کی نظریں سرورِ کائناتﷺ پر مرکوز تھیں، ایک بڑے خیمے میں تمام انصار جمع تھے اور آپﷺ انصار کے ساتھ دلی اور فطری لگاؤ کے متعلق وہ باتیں ارشاد فرما گئے کہ تمام حاضرین رونے لگے۔ آنکھوں سے اشک جاری تھے جو گرد و غبار میں اٹی ہوئی ان کی داڑھیوں کو چھو کر غائب ہو جاتے۔ آپﷺ کا یہ مختصر خطاب سن کر سب آبدیدہ ہوگئے اور روتے ہوئے کہنے لگے: ”ہم کیا کہیں یارسول اللہﷺ؟“


پیغمبرِ انقلابﷺ نے فرمایا:

"تم کہہ سکتے ہو کہ اے محمدﷺ! آپﷺ ایسے حال میں ہماری طرف آئے جب لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے چنانچہ ہم نے آپ کی تصدیق کردی، جب آپ (ﷺ) بالکل تنہا تھے ہم نے آپ کی حمایت کی، آپ بےگھر تھے ہم نے آپ کو پناہ دی۔

اے گروہ انصار! تم نے اپنے دل کی آنکھیں دنیا پر جما رکھی ہیں جس کو میں نے ان لوگوں (مشرکین اور نو مسلموں) کے اسلام لانے کا وسیلہ قرار دیا، اور تمہیں اپنے دین، اسلام کے سپرد کیا؟ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ لوگ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو لے کر چلے جائیں اور تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ؟ کیا میں تمہارے لیے کافی نہیں؟ اس خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار  کا حصہ ہوتا، میرا شمار بھی انصار میں ہوتا۔ اگر لوگ ایک راستے پر گامزن ہوجائیں اور انصار دوسرے راستے پر تو میں انصار کے ساتھ رہنا پسند کروں گا۔

اے گروہِ انصار!

آپ تو میرے دل کے بہت قریب ہیں، آج بھی اگر لوگ تقسیم ہونا چاہے تو میں آپ کی جماعت کو ترجیح دوں گا اور انصار کے جماعت میں شامل ہوکر آپ کے ساتھ رہنا پسند کروں گا۔ تو مجھے بتائیں! کیا میں آپ کیلئے کافی نہیں؟"


جنگ حنین میں مسلمانوں نے مشرکین کو ناکوں چنے چبوائے تو بعض مشرکین میدان سے بھاگ نکلے اور کچھ لوگ مالک بن عوف کے ساتھ طائف چلے گئے تھے۔ ان بھاگنے والوں میں سے زیادہ تر وہ ثقفی تھے جو اس میں جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ بعض لوگ نخلہ چلے گئے تھے اور بعض لوگوں نے اوطاس میں اپنی پرانی چھاؤنی میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا طائف کے قلعوں میں پہنچے اور پیغمبر انقلابﷺ نے بنفس نفیس قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ اہلیانِ طائف کو معلوم تھا کہ ان کا انجام قریب ہے اسلئے انھوں نے اپنے حصار میں اصلاحات کی تھیں اور اس کی تعمیر نو کا اہتمام کرکے اس میں ایک سال کی ضروریات کےلیے ساز و سامان اکٹھا کرلیا تھا۔ پیغمبرِ انقلابﷺ نے طائف کے نواح میں ایک بلند مقام پر پڑاؤ ڈالا، جہاں ثقفیوں نے بعد میں مسجد طائف تعمیر کی۔ طائف کا محاصرہ 15 یا اٹھارہ روز تک جاری رہا۔ دستیاب معلومات کے مطابق مسلمان مجاہدین نے دو بکتروں کی پناہ میں حصار پر حملہ کیا، بکتروں کو بیل کی کھال سے بنایا گیا تھا لیکن مشرکین نے پگھلتا ہوا لوہا پھینکا جس کی وجہ سے زرہوں اور بکتروں کو آگ لگ گئی اور انہیں واپس آنا پڑا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قلعہ قابو میں آتا نظر نہ آیا اور مسلمانوں پر تیروں کی بارش اور گرم لوہوں کی زد پڑی تو رسول اللہﷺ نے نوفل بن معاویہ سے مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا کہ:

”لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے، اگر آپ اس پر ڈٹے رہے تو پکڑلیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی“۔

یہ سن کر رسول اللہﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عمر بن خطابؓ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروادیا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے لیکن یہ اعلان صحابہ کرام پر گراں گزار۔ وہ کہنے لگے کہ:

”طائف فتح کیے بغیر واپس ہوں گے؟“

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: ”اچھا تو کل صبح لڑائی پر چلنا ہے۔“ چنانچہ دوسرے دن لوگ لڑائی پر گئے، لیکن چوٹ کھانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپﷺ نے پھر فرمایا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے۔ اس پر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بے چون وچرا رختِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہﷺ مسکراتے رہے۔

رسول اللہﷺ نے طائف کا محاصرہ اٹھا کر جعرانہ کی طرف رختِ سفر باندھا جہاں کہ جنگ حنین کے غنائم اور جنگی قیدیوں کو رکھا گیا، وہاں مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے متعدد واقعات پیش آئے جن میں انصار کی شکایت کا واقعہ بھی شامل ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی