غزوۂ تبوک
”اور نہ ان لوگوں پر کچھ حرج ہے کہ وہ جب (اے رسولﷺ) آپ کے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجئے اور آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں، تو وہ واپس گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے۔“
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے دل کھول کر چندہ دیا مگر پھر بھی پوری فوج کےلیے سواریوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ چنانچہ بہت سے صحابہ کرام اسی بنا پر اس جہاد میں شریک نہ ہو سکے کہ ان کے پاس سفر کا سامان نہیں تھا۔ یہ لوگ دربار رسالت میں سواری طلب کرنے کےلیے حاضر ہوئے مگر جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو یہ لوگ اپنی بے سروسامانی پر اس طرح بلبلا کر روئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ:
"وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۪ - تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ."
”اور نہ ان لوگوں پر کچھ حرج ہے کہ وہ جب (اے رسولﷺ ) آپ کے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجئے اور آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمھیں سوار کروں تو وہ واپس گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے۔“
یہ غزوہِ تبوک کا موقع ہے، ”تبوک‘‘ مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ یوں ہوا کہ حضور نبی کریمﷺ کو اطلاع ملی کہ غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا، اور قیصر روم کی حکومت نے شام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اس فتنہ سے نمٹنے کےلیے فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔ اس وقت حجازِ مقدس میں شدید قحط تھا اور بے پناہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی، ان وجوہات سے لوگوں کو گھر سے نکلنا شاق گزر رہا تھا۔ مدینہ کے منافقین جن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ مگر ان تمام مجاہدین کےلیے سواریوں اور سامانِ جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھا، کیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مفلوک الحال اور پریشان تھے۔ اس لیے حضور نبی کریمﷺ نے تمام قبائل عرب سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی، صحابہ کرام سے بھی چندے کی اپیل کی۔
یہ واقعہ آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنا سارا مال اور گھر کا تمام اثاثہ یہاں تک کہ بدن کے کپڑے بھی لا کر بارگاہ نبوت میں پیش کردئیے، اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنا آدھا مال اس چندہ میں دے دیا۔ منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جب اپنا نصف مال لے کر بارگاہِ اقدس میں چلے تو اپنے دل میں یہ خیال کرکے چلے تھے کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا کیونکہ اس دن کاشانۂ فاروق میں اتفاق سے بہت زیادہ مال تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر! کتنا مال یہاں لائے اور کس قدر گھر پر چھوڑا؟ عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! آدھا مال حاضر خدمت ہے اور آدھا مال اہل و عیال کےلیے گھر میں چھوڑ دیا ہے۔ اور جب یہی سوال حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے کیا تو انھوں نے عرض کیا کہ ”اِدَّخَرْتُ اللّٰه وَرَسُوْلَہٗ‘‘ میں نے اﷲ اور اس کے رسول کو اپنے گھر کا ذخیرہ بنا دیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”مَابَیْنَکُمَا مَا بَیْنَ کَلِمَتَیْکُمَا“
”تم دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا تم دونوں کے کلاموں میں فرق ہے“۔
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مجاہدین کی سواری کےلیے اور ایک ہزار اشرفی فوج کے اخراجات کی مد میں اپنی آستین میں بھر کر لائے اور حضور نبی کریمﷺ کے سامنے پیش کیے۔ رسول اللہﷺ نے ان کو قبول فرما کر یہ دعا فرمائی کہ: ’’اَللّٰھُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّیْ عَنْہُ رَاضٍ‘‘
”اے اﷲ تو عثمان سے راضی ہو جا، کیونکہ میں اس سے خوش ہوگیا ہوں“۔
پیغمبر انقلابﷺ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کےلیے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کےلیے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ: یارسول اللہﷺ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر خود جہاد کےلیے تشریف لیے جا رہے ہیں؟
تو (حضورﷺ نے) ارشاد فرمایا کہ:
”اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَیْسَ نَبِیَّ بَعْدِیْ“
”کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے“
بہرحال منافقین قسم قسم کے جھوٹے عذر اور بہانے بنا کر رہ گئے اور مخلص مسلمانوں میں سے بھی چند حضرات رہ گئے ان میں یہ حضرات تھے، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع، رضی اللہ عنہم.. جن کا واقعہ قرآن کریم میں ذکر ہے۔ یہ غزوہ انتہائی سخت حالات میں ہوا ہے جس میں پانی کی قلت، شدید گرمی، سواریوں کی کمی سے مجاہدین نے بے حد تکلیف اٹھائی مگر منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ پیغمبرِانقلابﷺ نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اللہﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے۔ رسول اللہﷺ نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
اس غزوہ میں جو لوگ غیر حاضر رہے ان میں اکثر منافقین تھے، جب پیغمبر انقلابﷺ تبوک سے مدینہ واپس آئے اور مسجد نبوی میں نزولِ اجلال فرمایا تو منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنا اپنا عذر بیان کرنے لگے۔ رسول اللہﷺ نے کسی سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا، لیکن تین مخلص صحابیوں حضرت کعب بن مالک و ہلال بن امیہ و مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا پچاس دنوں تک آپﷺ نے بائیکاٹ فرمایا، پھر ان تینوں کی توبہ قبول ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی۔