روحانیت اور مادیت کا قرآنی تصور
انسان در حقیقت ایک لطافت اور انرجی ہے جس نے مختلف ارتقائی ادوار سے گزر کر ایک مادی لباس پہن لیا ہے۔ مادہ پرست انسان نے اپنی اس مادیت کو اپنی اصل حقیقت سمجھ کر اس میں الجھ گیا ہے، اس کے نزدیک اصل مقصد و مطلب انسان کی مادی خواہشات اور ضروریات پوری کرنا ہے۔ جبکہ رہبانیت پرست انسان نے مادیت کو روحانیت کی ضد سمجھ کر اپنی تخلیق کا اصل مقصد رہبانیت (روحانیت) کو ٹھہرایا ہے، اور اس میں الجھ کر وہ زندگی کی دیگر مادی ضرورتوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے مگر تا حال ناکام و نامراد ہے۔ مادیت اور روحانیت بظاہر دو متضاد چیزیں ہیں لیکن مجسمہِ انسانی کو ان دونوں کا مجموعہ بنا کر تخلیق کیا گیا ہے۔ بعثت انبیاء کا مقصد بھی انسان کو ان دونوں صفات سے متصف کرکے ان کا ایک زبردست امتزاج پیدا کرنا تھا، اور ان کے درمیان انسان کے پیدا کردہ تضاد کو دور کرنا اور مادیت کو راہ بنا کر اصل مقصد (روحانیت) کو حاصل کرنا ہے۔ اور اس وجہ سے انبیاء کرام اور قرآنی تعلیمات نے مادی تقاضوں سے فرار اختیار کرکے رہبانیت اپنانے اور روحانی فرائض سے جان چھڑا کر مادہ پرست بننے کے نفی کی ہے۔ اسلام نہ تو محض مادیت کا قائل ہے اور نہ محض روحانیت کا۔ بلکہ اسلام کے نظر میں مادیت اور روحانیت ایک دوسرے کے ارتقائی عمل میں معاوِن و مددگار ہوتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ کے رو سے روحانیت مادیت کو اعتدال اور راہ راست پر لانے کا ذریعہ ہے اور مادیت اسی روحانیت کو تلاش کرنے کا راستہ ہے۔ لیکن انسانوں نے جس طرح مادیت اور روحانیت کو متضاد چیزیں متعارف کیے، اسی طرح وہ دو طبقوں میں بٹ گئے۔ ایک طبقہ محض رہبانیت کا دعویدار نکلا اور مادیت کو ایک لایعنی چیز تصور کیا۔ جبکہ دوسرے طبقے نے رہبانیت سے منہ پھیر کر محض مادیت کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ آسمانی تعلیمات میں ان دونوں طبقوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے، اور دونوں کو غلطی کے راہ پر گامزن دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں خالص رہبانیت کے بارے میں ارشاد ہے:
"وَرَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ"
”اور رہبانیت انھوں نے خود پیدا کرلی، ہم نے اسکا حکم نہیں دیا تھا، سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی خوشنودی طلب کریں، اس کی رعایت جیسا چاہیے تھا انھوں نے ملحوظ نہ رکھی“۔
(سورہ حدید: آیت ٢٧، ترجمہ از مولانا ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن)
اس آیت مبارکہ سے رہبانیت کی تصویر واضح ہوتی ہے جو مسیحیوں نے از خود اپنے اوپر لازم کی تھی اور انکے زعم میں اسکا مقصد یہ تھا کہ اس سے وہ اللہ کے رضا حاصل کریں گے۔ جبکہ در اصل انکی اس رہبانیت کا انھیں خدا کے طرف کوئی بھی حکم نہیں ملا تھا بلکہ تعلیمات خداوندی نے اس جیسے رہبانیت کی نفی کی ہے۔ نصرانیوں نے اس حوالے سے دوہری غلطی کردی، ایک تو از خود رہبانیت ایجاد کرکے اپنے اوپر فرض کرلی اور دوسری یہ کہ پھر اس رہبانیت کا کما حقہ رعایت بھی نہ کرسکے۔ چنانچہ اس رہبانیت کے آڑ میں ان میں بدعات اور خرفات کا ایک طویل سلسلہ پھیل گیا۔ رہبانیت عیسائیوں میں کیسے رائج ہوئی؟ چنانچہ اس حوالے سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ فرماتے ہیں:
”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوسو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا، مگر مسیحیت میں ایسے تخیلات پائے جاتے تھے جن پر بعد میں رہبانیت کی اساس قائم ہوئی۔ بلکہ دنیوی کاروبار سے علیحدگی اور تجرد کی زندگی کو افضل سمجھا جاتا تھا۔ مگر تیسری صدی میں اس تخیل نے ایک فتنے کی شکل اختیار کی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیل گئی“
(ترجمان القرآن، جلد٣، ٤٢٠)
یہ رہبانیت یہ تھی کہ راہب لوگ سخت ریاضتیں کرکے اپنے جسم کو مشقت میں مبتلا کرتے، نفس کشی کےلیے خانقاہوں میں مشقتیں کرتے تھے، ساری جدوجہد اور زور انکی روح پر تھی اور مادی ضروریات گو کہ انکے ہاں ایک قسم کا گناہ بن گیا تھا۔ اور پھر اس رہبانیت کے بدولت عیسائیوں نے بدکاریوں کو روکنے کےلیے عورت اور مرد کے جنسی تعلق کو نجس قرار دیا۔ بدعات کو فروغ دیا گیا، اولیاء پرستی، مریم و عیسیٰ کے مجسموں کی پوجا، تعویذ گنڈے یہ سب عیسائیوں کے ہاں قبولیت عام حاصل کرگئے۔ اور یہی راہب عیسائیوں کے اولیاء بن گئے۔ راہبوں کے ان ریاضتوں میں وہ نمونے ملتے ہیں جو عقل کےلیے ماننا بھی مشکل ہے اور یورپ کے تہذیب جدید کےلیے ایک پیغام فکر ہے۔ مثلاً سینٹ پیکربس اسکندروی چھ ماہ تک مسلسل ایک دلدل میں سویا تا کہ ان برہنہ جسم کو زہریلی مکھیاں ڈسیں، اور یہ ہمیشہ ایک من لوہے کا وزن اپنے اوپر لادے رہتے تھے۔ ایک مشہور راہب یوحنا تین سال تک مسلسل کھڑے ہو کر عبادت کرتے رہے اور ایک لمحہ کےلیے بھی نہیں بیٹھے، جب زیادہ تھک جاتے تو چٹان سے خود کو سہارا دیتے۔ بعض راہب بالکل برہنہ رہتے تھے، سترپوشی کا کام اپنے جسم کے بالوں سے لیتے تھے اور چارپایوں کے طرح ہاتھ اور پاؤں سے چلتے تھے۔ انکے گھر نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ وحشی درندوں کے غار، خشک کنوؤں اور قبرستانوں میں رہتے تھے، عام کھانے کے بجائے جانوروں کے طرح گھاس کھاتے تھے۔ جسمانی پاکیزگی، ہاتھ منہ دھونا، غسل کرنا روحانی پاکیزگی کے منافی سمجھا جاتا تھا، چنانچہ جو راہب جتنی زیادہ مراتب زہد طے کرتا گیا معاً وہ غلاظت و گندگی کا ایک ڈھیر بنتا گیا۔ ایک اور عیسائی سینٹ انٹونی نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے، سینٹ ابراہام نے اپنے پچاس سالہ مسیحی زندگی میں چہرے یا پیر پر پانی کی چھینٹ نہ پڑنے دی۔ راہب بننے کے بعد وہ عورتوں کے سائے سے بھاگتے تھے، اپنی ماؤں، بہنوں اور بیویوں سے بات کرنا تک گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ اور حیران کن بات یہ تھی اپنی ان خرافات کو وہ عبادت اور قرب خداوندی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس اختراعی رہبانیت کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے اندر صاف گوئی، خوش طبعی، زندہ دلی اور جرات جیسے صفات ختم ہوگئے تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی ہر حوالے سے تباہ ہوکر رہ گئی تھی۔ چنانچہ ان کے اس اختراعی رہبانیت کی قرآن میں صراحتاً نفی کی گئی ہے۔
جبکہ دوسری طرف مادہ پرست طبقہ ہے جسکا تسلسل تاہنوز روئے زمین پر جاری ہے۔ جنکا مقصد ہر قسم عش و عشرت کی زندگی گزارنا ہے۔ پرتعیش کھانے، لباس، بینک بیلنس، بنگلہ گاڑی، جنسی ہوس ہر مادی چاہ کو پوری کرنا اور اس کے اتمام کےلیے کسی بھی حد سے گزرنا، ہر ظلم روا رکھنا، قانون اور اخلاقی ضابطوں کی پامالی کرنا، اور ہر حرام کو جائز کرنا انکی مقصد اولی ہے۔ نہ کوئی علمی و ادبی ذوق اور ترقی، نہ روحانی عروج، نہ اخلاق کریمہ، نہ اعتدال طبع، نہ اقدار عالیہ اور نہ انسانیت کی خدمت کی کوئی سرگرمی ہے۔ بس نفس کی ہر خواہش پر لبیک کہنا انکی اولین مقصد ہے۔ قرآن مجید نے نری رہبانیت پرست طبقے کے طرح اس طبقے کے بھی نفی کی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
"اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ﴿۱۷۹﴾"
”وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کے طرح ہوگئے، بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے“۔
(سورہ اعراف: آیت ١٧٩، ترجمہ از مولانا ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن)
قرآن کریم کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ یہ طبقہ چارپایوں سے بھی گزرا ہے، کیونکہ چارپا تو مادی تقاضہ پوری کرکے قانع ہوجاتے ہیں، پیٹ بھر جائے تو ضرورت پوری۔ لیکن جس انسان کو مادیت کی ہوس لگ جائے تو وہ ضروریات پوری کرکے بھی مزید کےلیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، اور ہر قسم انسانی اور اخلاقی اقدار سے نکل جاتا ہے۔ محض رہبانیت کی طرح محض مادیت بھی دربار خداوندی میں مقبول نہیں ہے، کیونکہ اللہ کریم کے قانون فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان ان دونوں کا مجموعہ بنا کر تخلیق کیا گیا ہے، تو اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ از خود بھی ان دونوں کا حسین امتزاج اور اعتدال پیدا کرکے گزر جائے۔ ان میں اگر وہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے کے طرف لپکے گا تو دربار الٰہی سے خائب و خاسر لوٹے گا۔
رہبانیت اگر اب ختم ہو تو ہو، لیکن مادیت تو اب عروج پر ہے بلکہ یہ دور مادیت کا ہے۔ ہر کوئی مادیت کے پیچھے پاگل پن اپنا کر دوڑ رہا ہے۔ انسان دیگر تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہے، اگر محض مادیت مطلوب ہوتی تو پھر انسان کو اشرف المخلوق ہونے کی ضرورت کیا تھی، کیونکہ مادی ضروریات تو انسان سے چارپا زیادہ لطف کے ساتھ پوری کرلیتے ہیں۔ تو ایک انسان کو یہ کیونکر زیب دیتا ہے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے جو اس سے نچلے طبقے کے مخلوقات کرتی ہیں۔
اسلام کے ہاں نہ مادیت کی حیوانی زندگی مقصود ہے اور نہ رہبانیت کی بے مقصد و بے معنی زندگی۔ اسلام ان دونوں تقاضوں کو کچھ قیود و پابندیاں لگا کر اس انداز میں پورا کرنا چاہتا ہے کہ انکے درمیان میں اعتدال، تناسب اور توازن ہو، تاکہ اس کے بدولت دونوں کی امتزاج میں لطافت اور حسن باقی رہے۔ تعلیمات اسلامی کا تقاضہ یہی ہے کہ ان دونوں کا امتزاج اور اعتدال قائم ہو، نہ مادیت روحانیت سے جدا ہو اور نہ روحانیت مادیت سے جدا، بلکہ ہر مادی ضرورت روحانی لطافتوں سے وابستہ ہو اور ہر روحانی کیفیت مادیت کا جلوہ ہو۔