پیغمبرِ انقلابﷺ کا سفرِ حج



پیغمبرِ انقلابﷺ کا سفرِ حج

🪶وسیم اکرم حقانؔی



فریضہِ نبوت کی ادائیگی اور ابلاغ ما انزل اللہ کی تکمیل کرتے حضور نبی کریمﷺ نے آخری سفر یعنی سفرِ حج کا ارادہ کیا اور صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کو ساتھ لے کر زیارتِ بیت اللہ کا سفر کیا۔ حج کے بارے میں آپﷺ کے اسوۂ حسنہ کا بیان آپﷺ کے صحابی حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں، جب ان سے حضور اکرم کے حج کی بابت پوچھا گیا۔

حضرت جابرؓ نے ہاتھ کے اشارے سے ۹ تک گنتی کرکے فرمایا:

”بیٹے واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ مدینے آکر رہے تو ۹ سال تک آپﷺ نے کوئی حج نہیں کیا۔ پھر ہجرت کے دسویں سال آپﷺ نے عام اعلان کرایا کہ اس سال آپﷺ حج کیلئے تشریف لے جائیں گے۔ یہ اطلاع پاتے ہی بہت بڑی تعداد میں لوگ مدینے آکر جمع ہونے لگے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ اس مبارک سفر میں آپﷺ کے ہمراہ جائے اور آپﷺ کی پیروی کرے اور وہی کچھ کرے جو آپﷺ کو کرتے دیکھے۔

آخر کار مدینے سے روانہ ہونے کا وقت آیا اور یہ پورا قافلہ نبی اکرمﷺ کی قیادت میں مدینے سے روانہ ہوکر ذوالحلیفہ کے مقام پر پہونچا اور اس دن قافلے نے اسی مقام پر قیام کیا۔ دوسرے روز نبی اکرمﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی اور پھر آپﷺ اپنی قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوئے۔ اونٹنی آپﷺ کو لے کر قریب کے بلند میدان بیداء پر پہنچی۔ بیداء کی بلندی سے جب میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، تو مجھے آگے پیچھے دائیں بائیں حد نظر تک آدمی ہی آدمی نظر آئے، کچھ سوار تھے اور کچھ پیدل۔ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان میں تھے اور آپﷺ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپﷺ قرآن کے مفہوم اور مطلب کو خوب سمجھتے تھے۔ لہٰذا حکم خداوند کے تحت آپﷺ جو کچھ بھی کرتے تھے ہم لوگ بھی وہی کرتے۔ یہاں پہونچ کر آپﷺ نے بلند آواز سے توحید کا تلبیہ پڑھا۔

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

”میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناً ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے، سارے احسانات تیرے ہی ہیں اور بادشاہی سراسر تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں“۔

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں، دراصل اس سفر میں ہماری نیت صرف حج ادا کرنے کی تھی۔ جب ہم سب لوگ نبی اکرمﷺ کی معیت میں بیت اللہ پہنچے تو نبیﷺ نے سب سے پہلے حجر اسود کا استلام کیا، پھر طواف شروع کیا اور پہلے تین چکروں میں آپﷺ نے رمل فرمایا، پھر چار چکروں میں معمولی رفتار سے چلے، پھر آپﷺ مقامِ ابراہیم علیہ السلام پر آئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی

(اور مقامِ ابراہیم ؑ کو اپنے لئے عبادت گاہ قرار دے لو)

پھر آپﷺ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیمؑ آپﷺ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا اور آپﷺ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی، ان دو رکعتوں میں آپﷺ نے سورة الکافرون اور سورۂ اخلاص کی قرأت فرمائی۔ پھر آپﷺ حجر اسود کے پاس لوٹ کر آئے، حجر اسود کا استلام کیا پھر ایک دروازے سے صفا کی طرف چلے، جب صفا کے بالکل قریب پہنچے تو آپﷺ نے یہ آیت پڑھی:

”اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ“

”بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔“ اور فرمایا: ”اَبْدَأُ بِمَا بَدَاءَ اللّٰہُ بِہٖ“

”میں صفا سے اپنی سعی شروع کرتا ہوں جس طرح اللہ نے اس آیت میں اس کے ذکر سے شروع کیا ہے“۔

پس آپﷺ پہلے صفا پر آئے اور صفا پر اتنے اونچے تک چڑھے کہ بیت اللہ آپﷺ کو صاف نظر آنے لگا اور آپﷺ قبلے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوگئے، پھر آپﷺ توحید اور تکبیر میں مصروف ہوگئے اور آپؐ نے پڑھا:

”لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئً قَدِیْرٌ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ“

”خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اقتدار اسی کا حق ہے، حمد و شکر کا وہی مستحق ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے تنہا تمام کافر گروہوں کو شکست دی.“

پھر آپﷺ صفا سے نیچے آئے اور مروہ کی طرف چلے اور مروہ پر بھی وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا۔ یہاں تک کہ آپﷺ آخری چکر پورا کرکے مروہ پر پہونچے، تو آپﷺ نے اپنے رفقاء سفر سے خطاب فرمایا۔ آپﷺ اوپر مروہ پر تھے اور ساتھی نیچے نشیب میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا:

”لَوِ اسْتَقْبَلْتُ من أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ؛ ما أَهْدَيْتُ، ولولا أن معي الهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ“

”اگر مجھے اس بات کا احساس ہوجاتا، جس کا احساس بعد میں ہوا تو میں ہدی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اس طواف و سعی کو عمرے کی سعی و طواف قرار دے کر اس کو عمرہ بنا لیتا اور احرام کھول دیتا۔“

یوم الترویہ (یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ ہوگئی) کو سارے لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے اور (ان) لوگوں نے بھی حج کا احرام باندھا، جو عمرہ کرکے احرام ختم کرچکے تھے، اور نبیﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر منیٰ کو روانہ ہوئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی