خطبۂ حجۃ الوداع، ایک عالمی منشور



خطبۂ حجۃ الوداع، ایک عالمی منشور

🪶وسیم اکرم حقانؔی



"اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو، شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی یہاں تم سے ملاقات نہ ہو سکے۔“

پیغمبرِانقلابﷺ عرفات کے میدان میں موجود ہیں اور ایک عالمی منشور کا اعلان فرما رہے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد جانثار پیغمبرِ انقلابﷺ کے روبرو موجود ہیں اور سب ہمہ تن گوش ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کیا ارشاد فرمائیں گے؟

روایت میں آتا ہے کہ:-

"اِذَا کَانَ یَوْمُ الْحَجِّ اَتٰی رَسُولُ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَرَفَةَ، فَنَزَلَ بِهَا حَتّٰی اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، اَمَرَ بِالْقَصْوَآءِ فَرُحِلَتْ لَهٗ، فَاَتٰی بَطْنَ الْوَادِیْ، فَخَطَبَ النَّاسَ خُطْبَتُهُ الَّتِیْ بَیَّنَ فِیْهَا مَا بَیَّنَ"

’’حج کے دن حضور نبی کریمﷺ عرفہ تشریف لائے اور آپﷺ نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھلنے لگا تو آپﷺ نے (اپنی اونٹنی) قصوا لانے کا حکم فرمایا۔ اونٹنی تیار کر کے حاضر کی گئی تو آپﷺ (اس پر سوار ہو کر) بطنِ وادی میں تشریف فرما ہوئے اور اپنا وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے اہم امور بیان فرمائے‘‘


"فَحَمِدَﷲَ، وَ اَثْنٰی عَلَیْهِ قَائِلاً: لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، صَدَقَ وَعْدَهٗ، وَ نَصَرَ عَبْدَهٗ، وَ هَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَهٗ"

’’آپﷺ نے خدا کی حمد ثنا کرتے ہوئے خطبے کی یوں ابتدا فرمائی: خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس نے اپنے بندے (رسول) کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا۔‘‘


"اَیُّهَا النَّاسُ! اِسْمَعُوْا قَوْلِیْ، فَاِنِّیْ لَا اَرَانِیْ وَ اِیَّاکُمْ اَنْ نَجْتَمِعَ فِیْ ھٰذَا الْمَجْلِسِ اَبَدًا بَعْدَ عَامِیْ ھٰذَا"

’’لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے (اور غالباً اس سال کے بعد میں حج نہ کر سکوں گا)۔‘‘


پیغمبرِ انقلابﷺ مساواتِ اِنسانی کا تصور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

"اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ ﷲَ یَقُوْلُ: یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِاَتْقٰـکُمْ. فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ، وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ، وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی"

’’لوگو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔“ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے. ہاں! بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔“


"اَلنَّاسُ مِنْ اٰدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَابٍ، اَلاَ کُلُّ مِأْثَرَۃٍ اَوْ دَمٍ اَوْ مَالٍ یُدَّعٰی بِہٖ فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ اِلَّا سَدَانَۃُ الْبَیْتِ وَ سَقَایَۃُ الْحَاجِّ"

’’انسان سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے اِنتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔ بس بیت اﷲ کی تولّیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہٖ باقی رہیں گی۔‘‘


انسانیت کے سب سے بڑے معلم اور حقیقی خیر خواہ اپنے چاہنے والوں کو حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں کہ:

"یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! لَا تَجِیْؤُا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَهَا عَلٰی رِقَابِکُمْ، وَ یَجِئُ النَّاسُ بِالْاٰخِرَۃِ، فَلَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ ﷲِشَیْئًا"

”قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ اﷲ کے حضور تم اس طرح آؤ کے تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہو اور دوسرے لوگ سامانِ آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں خدا کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔‘‘


پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریمﷺ کے زمانے میں نسلی تفاخر کا زور تھا جس کے خاتمے کو حضور نبی کریمﷺ نے ضروری سمجھا اور فرمایا کہ:-

"یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اِنَّ ﷲَ قَدْ اَذْهَبَ عَنْکُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِیَّۃِ، وَ تَعَظُّمَهَا بِالْاٰبَاءِ"

’’قریش کے لوگو! خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘


داعیِ امن، مصلح اعظمﷺ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کو زندگی کا حق دیا اور ان کو محفوظ کیا کہ:

"اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ دِمَائَکُمْ وَ اَمْوَالَکُمْ وَ اَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، اِلٰی اَنْ تَلْقَوْا رَبَّکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ هٰذَا، وَ کَحُرْمَۃِ شَهْرِکُمْ هٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ هٰذَا، وَ اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ، فَیَسْئَلُکُمْ عَنْ اَعْمَالِکُمْ"

’’لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئی ہیں۔ ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسی اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے۔ تم سب خدا کے حضور جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس فرمائے گا۔“


"اَلاَ! فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ ضُلَّا لًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ"

’’دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔‘‘


اَفرادِ معاشرہ کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے فرمایا کہ:- 

"اَیُّهَا النَّاسُ! کُلُّ مُّسْلِمٍ اَخُوا الْمُسْلِمِ، وَ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ اِخْوَۃٌ"

’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘


"اَرِقَّآئَکُمْ اَرِقَّائَکُمْ، اَطْعِمُوْهُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ، وَاکْسُوْهُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ"

’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔“


حضور نبی کریمﷺ نے لاقانونیت کی بیخ کنی ان الفاظ میں کی:

"اَلاَ! کُلُّ شَیْئٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاهِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ، وَ دِمَاءَ الْجَاهِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ، وَ اِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآئِنَا دَمُ ابْنِ الرَّبِیْعَۃِ بْنِ الْحَارِثِ، وَ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ، فَقَتَلَهٗ هُذَیْلٌ"

’’دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا، زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں، میرے اپنے خاندان کا ہے، ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا، اب میں معاف کرتا ہوں۔‘‘


معاشی اِستحصال سے تحفظ اور مستحکم اقتصادی بنیاد فراہم کرتے ہوئے فرمایا کہ:-

"وَ رِبَا الْجَاهِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ، وَ اَوَّلُ رِبًا اَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطْلِبِ، فَاِنَّهٗ مَوْضُوْعٌ کُلَّهٗ"

’’اب دور جاہلیت کا سود کوئی حیثیت نہیں رکھتا، پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے، اب یہ ختم ہوگیا۔“


زوجین کے باہمی حقوق کے متعلق راہنمائی فراہم کرتے ہوئے فرمایا کہ:-

"اَلاَ! لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ اَنْ تُعْطِیَ مِنْ مَالِ زَوْجِهَا شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِہٖ. اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَآئِکُمْ حَقًّا، وَ لَهُنَّ عَلَیْکُمْ حَقًّا، لَکُمْ عَلَیْهِنَّ اَلَّا یُوْطِئْنَ فَرْشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَهُوْنَهٗ، وَ عَلَیْهِنَّ اَنْ لَّا یَاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَاِنْ فَعَلْنَ فَاِنَّ ﷲَ قَدْ اَذِنَ لَکُمْ اَنْ تَهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اَنْ تَضْرِبُوْا ضَرْبًا غَیْرَ مُبْرَحٍ، فَاِنِ انْتَهَیْنَ فَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْروْفِ"

’’عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اِجازت کے بغیر کسی کو دے۔ دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انھیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔‘‘


حقوقِ نسواں کے حوالے سے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا کہ:

"وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآءِ خَیْرًا، فَاِنَّهُنَّ عَوَانٍ لَکُمْ لَا یَمْلِکْنَ لِاَنْفُسِهِنَّ شَیْئًا، فَاتَّقُوا ﷲَ فِی النِّسَآءِ، فَاِنَّکُمْ اَخذْ تُمُوْهُنَّ بِاَمَانِ ﷲِ، وَاسْتَخْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَاتِ ﷲِ"

’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انھیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حقِ تبلیغ ادا کر دیا۔‘‘


حقوق اللہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے پیغمبر انقلابﷺ نے فرمایا کہ:- 

"اَلاَ! فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَ صَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَ صُوْمُوْا شَهْرَکُمْ، وَ اَدُّوْا زَکوٰةَ اَمْوَالِکُمْ طَیِّبَۃً بِهَا اَنْفُسُکُمْ، وَ تَحُجُّوْا بَیْتَ رَبِّکُمْ، وَ اَطِیْعُوْا وَلَاةَ اَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ"

’’لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو، اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل اَمر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔


مزید فرمایا کہ:

"وَ اَنْتُمْ تُسْأَلُوْنَ عَنِّیْ، فَمَا ذَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا: نَشْهَدُ اِنَّکَ قَدْ اَدَّیْتَ الْاَمَانَةَ، وَ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ، وَ نَصَحْتَ"

’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (خدا کے ہاں) سوال کیا جائے گا، بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانتِ (دین) پہنچا دی اور آپ نے حقِ رِسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔‘‘


"فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِاَصْبُعِهِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُهَا اِلَی السَّمَآءِ وَ یَنْکُتُهَا اِلَی النَّاسِ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ"

’’یہ سن کر حضورﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ دعا فرمائی: ’’خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا۔‘‘


آج کے دور میں اس عالمی منشور پر عمل پیرا ہو کر ہی اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی