رحمۃ للعالمینﷺ کا سانحۂ ارتحال
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ۞
”اور محمد ﷺ تو ایک رسول ہے ہوچکے اس سے پہلے بہت رسول، پھر کیا اگر وہ مرگیا اور مارا گیا تو تم پھر جاؤے گے الٹے پاؤں، اور جو کوئی پھر جائے گا الٹے پاؤں تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ اور اللہ ثواب دے گا شکر گزاروں کو“
منافقین کہتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے وفات پائی۔ واللہ آپﷺ نے وفات نہیں پائی، آپﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح طلب کیے گئے ہیں، جو 40 روز غائب رہ کر واپس آگئے تھے۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آپ وفات پاگئے ہیں۔ خدا کی قسم حضور نبی کریمﷺ بھی انھیں کی طرح دنیا میں واپس تشریف لائیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ پر وفات کا الزام لگاتے ہیں۔
ہائے…… فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابیِ رسول (ﷺ) غایت بےبسی سے نڈھال اور آنکھوں میں اشکوں کا سمندر روکے ہوئے کھڑے ہیں اور یہ اعلان فرمایا کہ:
"خبردار! کسی کی منہ سے یہ الفاظ پھر نہ سنوں ورنہ تو اس کی گردن اڑا دوں گا"
رحمۃ اللعالمینﷺ جس مقصد کےلیے تشریف لائے تھے اس کی تکمیل کرچکے تو آخری حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ:
"اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا ؕ"
”آج میں پورا کرچکا ہوں تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
اب پیغمبرِ انقلابﷺ کے انتقال کا مقررہ لمحہ آن پہنچا اور ایک عظیم الشان انقلاب برپا کرکے پیغمبرِ انقلابﷺ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ وفات کا درد ناک منظر حضرات صحابہ کرام نے یوں بیان فرمایا کہ اس کو پڑھ کر انسان کا دل موم کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور آیتِ کریمہ "كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِؕ" پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے کہ اگر بالفرض ذائقہِ موت چھکنے سے کوئی مستثنیٰ ہوتا تو وہ استثناء پیغمبرِ انقلابﷺ کو حاصل ہوتا اور آپﷺ اس درد سے نہ گذرتے جس کے متعلق سن کر ہم جیسے سنگ دل بھی کانپ اُٹھتے ہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے کہ ہر ذی روح پر موت کا وقت آئے گا اور اس کی روح قبض کی جائے گی۔ سو یہی الٰہی قانون پیغمبرِ انقلابﷺ کے معاملے میں بھی بروقت حرکت میں آیا۔
وفات سے قبل پیغمبرِ انقلابﷺ مسجد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”مسلمانو! اے میرے جانثار ساتھیو! ہر مشکل و راحت میں ساتھ نبھانے والو! میری بات غور سے سنو! تم سے پہلے ایک قوم گزر چکی ہے جس نے اپنے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا تم ایسا نہ کرنا“
پھر فرمایا: ”ان یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو، جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ میری قبر کو میرے بعد وہ قبر نہ بنا دینا کہ اس کی پرستش شروع ہو جائے۔ مسلمانو! وہ قوم اللہ کے غضب میں آجاتی ہے جو قبورِ انبیاء کو مساجد بنادے۔“
آخری وقت آن پہنچا ہے اور پیغمبرِ انقلابﷺ کوچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن ساتھ ساتھ پیچھے رہ جانے والی امت کا خوف بھی لاحق ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میرے جانے کے بعد میری امت بھی امم سابقہ کی طرح فکری و نظریاتی گمراہی و عملی بے راہ روی میں مبتلاء ہو جائے۔ اسلئے پیشگی تحفظ یقینی بناتے ہوئے وقتاً فوقتاً ہدایات دے رہے ہیں کہ میری قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے بچنا وغیرہ وغیرہ۔۔
سب صحابہ کرام حضور نبی کریمﷺ کے ارشادات کو غور سے سنتے رہے اور ان احکامات پر عمل کا عزمِ مصمم ظاہر کیا کہ اسی اثنا صدیقِ اکبرؓ کے آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں حیران ہوں کہ صدیقِ اکبرؓ کیسے نکتہ ور عاشق اور رمز شناس تھے؟ کہ سینکڑوں افراد میں صرف صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ہی جان گئے کہ رحمۃ اللعالمینﷺ آخرت کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رو رہے تھے اور فرمایا:
”یارسول اللہ (ﷺ)! ہمارے ماں باپ، ہماری جانیں اور ہمارے زر و مال آپ پر قربان ہو جائیں“۔
سب حاضرین ان کو تعجب سے دیکھ رہے ہیں کہ اس میں رونے کی کیا بات ہے کہ صدیق اکبرؓ رو رہے ہیں۔ مگر یہ بات تو صدیق اکبر کو معلوم تھی اسلئے تو وہ رو رہے تھے۔ پیغمبرِ انقلابﷺ سمجھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ:-
”میں سب سے زیادہ جس شخص کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں، وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی ایک شخص کو اپنی دوستی کےلیے منتخب کر سکتا، تو وہ ابوبکر ہی ہوتے، لیکن اب رشتہ اسلام میری دوستی کی بنا ہے اور وہی کافی ہے۔ مسجد کے رخ پر کوئی دریچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دریچہ کے سوا باقی نہ رکھا جائے۔“
جس دن سے آپﷺ مرض میں مبتلا ہوئے اسی دن سے آپﷺ الگ الگ مواقع پر مختلف ارشادات فرماتے گئے اور امت کو آخری وقت میں بھی نصائح و ارشادات کا گراں قدر سرمایہ سپرد کر گئے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:-
”اب آپﷺ اہل بیت کی طرف متوجہ ہوئے کہ کہیں رشتہِ نبوت کا غرور انھیں عمل و سعی سے بیگانہ نہ بنادے۔ ارشاد فرمایا:
”اے رسول (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ! اور اے پیغمبرِ خدا (ﷺ) کی پھوپھی صفیہ! خدا کے ہاں کےلیے کچھ کرلو! میں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا۔“
وقت کے ساتھ ساتھ رحمۃ اللعالمینﷺ کا مرض شدت اختیار کرتا گیا اور شدتِ مرض کی وجہ سے محسنِ اعظمﷺ کبھی ایک پاؤں پھیلاتے اور کبھی دوسرا سمیٹے تھے۔ کبھی تکلیف کی وجہ سے چہرہ پر چادر ڈال لیتے تھے اور کبھی اُلٹا دیتے تھے۔
رحمۃ اللعالمینﷺ شدید بیمار ہونے کے باوجود بھی گیارہ روز تک برابر مسجد میں تشریف لاتے رہے۔ جمعرات کے روز مغرب کی نماز بھی خود پڑھائی۔
رحمۃ اللعالمینﷺ کے وفات سے دو روز قبل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز پڑھارہے تھے کہ پیغمبر انقلابﷺ نے مسجد جانے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سہارا لیتے ہوئے جماعت میں تشریف لے آئے۔ حضور نبی کریمﷺ کی آمد کا احساس ہوتے ہی صدیق اکبر رضی اللہ مصلے سے پیچھے ہٹے، مگر رحمۃ اللعالمینﷺ نے دست مبارک سے ارشاد فرمایا: ”پیچھے مت ہٹو۔“
پھر حضور نبی کریمﷺ صدیق اکبر رضی اللہ کے برابر بیٹھ گئے اور نماز ادا کرنے لگے۔ اگلے روز پیغمبرِ انقلابﷺ جب صبح بیدار ہوئے تو سب سے پہلے چالیس کی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا اور پھر اپنے نقد اثاثہ جات (سات دینار) کے متعلق امی عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ:
”انھیں غریبوں میں تقسیم کر دو، مجھے شرم آتی ہے کہ رسول اپنے اللہ سے ملے اور اس کے گھر میں دولت دنیا پڑی ہو۔“
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ محسنِ اعظم حضور نبی کریمﷺ کے یومِ وفات کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
"09 ربیع الاوّل (دوشنبہ) کو مزاج اقدس میں قدرے سکون تھا، نماز صبح ادا کی جا رہی تھی کہ حضورﷺ نے مسجد اور حجرہ کا درمیانی پردہ سرکا دیا۔ اب چشم اقدس کے روبرو نمازیوں کی صفیں مصروف رکوع و سجود تھیں۔ سرکار دو عالمﷺ نے اس پاک نظارے کو جو حضورﷺ کی پاک تعلیم کا نتیجہ تھا، بڑے اشتیاق سے ملاحظہ فرمایا اور جوش مسرت میں ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ مسجد میں تشریف لارہے ہیں، نمازی بے اختیار سے ہوگئے، نمازیں ٹوٹنے لگیں اور صدیق رضی اللہ عنہ جو امامت کرا رہے تھے، نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر حضورﷺ نے اشارہ مبارک سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھا کر پھر حجرے کا پردہ ڈال دیا۔“
پیغمبرِ انقلابﷺ سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔ سخت جسمانی تکلیف میں پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو یاد فرمایا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رحمۃ اللعالمینﷺ کا یہ حال دیکھا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور سینہ مبارک سے لپٹ گئیں اور رونے لگیں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اس طرح نڈھال دیکھ کر ارشاد فرمایا:
”میری بیٹی! رو نہیں! میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ کہنا. اسی میں ہر شخص کےلیے سامان تسکین موجود ہے۔“
آپ کےلیے بھی؟ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے استفسار کیا۔
فرمایا: ”ہاں، اس میں میری بھی تسکین ہے۔“
فاطمہ رضی اللہ عنہا، جو حضور نبی کریمﷺ کی لاڈلی بیٹی تھیں جس کے ساتھ رسول اللہﷺ بہت محبت فرماتے تھے، کےلیے محسنِ اعظمﷺ کی تکلیف ناقابلِ برداشت تھی سو وہ بے اختیار رو رہی تھیں، جس پر رحمۃ اللعالمینﷺ نے ان کی اذیت کو محسوس کر کے کچھ کہنا چاہا، تو پیاری بیٹی نے سرور کائناتﷺ کے لبوں سے اپنے کان لگا دئیے۔ آپﷺ نے فرمایا:
”بیٹی! میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں۔“
یہ سنتے ہی فاطمہ رضی اللہ عنہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں جس پر حضور نبی کریمﷺ نے تسلی دی اور فرمایا:
”فاطمہ! میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھے ملو گی۔“
یہ سن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی بے اختیار ہنس دیں کہ جدائی قلیل ہے۔
امام الہند اس درد ناک منظر کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
”پیغمبرِ انسانیتﷺ کی حالت نازک ترین ہوتی جارہی تھی، یہ حال دیکھ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہنا شروع کیا: وا کرب اباہ! ہائے میرے باپ کی تکلیف! ہائے میرے باپ کی تکلیف!
فرمایا: فاطمہ! آج کے بعد تمہارا باپ کبھی بے چین نہیں ہوگا۔“
حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ بہت غمگین ہور ہے تھے۔ انھیں پاس بلایا، دونوں کو چوما، پھر ان کے احترام کی وصیت فرمائی۔ پھر ازواج مطہرات کو طلب فرمایا اور انھیں نصیحتیں فرمائیں۔ اسی دوران میں ارشاد فرماتے تھے:
"فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ"
”ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا نے انعام فرمایا۔“
کبھی ارشاد فرماتے:
"اللَّهُم بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى"
”اے خداوندا بہترین رفیق!“
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔ آپ نے سرمبارک کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ انھیں بھی نصیحت فرمائی۔ پھر ایک دم اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
"الصَّلوةُ الصَّلَوةُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ"
”نماز! نماز! لونڈی غلام اور پسماندگان!“
اب نزع کا وقت آ پہنچا تھا۔ رحمۃ اللعالمینﷺ عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پانی کا پیالہ پاس رکھا تھا، اس میں ہاتھ ڈالتے تھے، اور چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے۔ روئے اقدس کبھی سرخ ہو جاتا تھا اور کبھی زرد پڑ جاتا تھا۔ زبان مبارک آہستہ آہستہ ہل رہی تھی:
"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٌ"
”خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف کے ساتھ ہے۔“
عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک تازہ مسواک کے ساتھ آئے تو حضور پاکﷺ نے مسواک پر نظر جمادی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ مسواک فرمائیں گے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے دانتوں میں نرم کر کے مسواک پیش کی اور آپﷺ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی۔ دہان مبارک پہلے ہی طہارت کا سراپا تھا، اب مسواک کے بعد اور بھی مجلا ہوگیا۔ تو یک لخت ہاتھ اونچا کیا کہ گویا کہیں تشریف لے جارہے ہیں۔ اور پھر زبان قدس سے نکلا:
"بَلِ الرَّفِيقُ الْأَعْلَى، بَلِ الرَّقِيقُ الأعلى"
تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کےلیے رخصت ہو گئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ پھر دنیا نے آپﷺ جیسا کامل اور مکمل فرد نہیں دیکھا اور کمال و فضل آپﷺ کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔